پاکستان سے تعلق رکھنے والے ارشد ندیم نے اولمپکس 2024 میں ملک کے لیے پہلا گولڈ میڈل جیت کر تاریخ رقم کردی۔ انہوں نے 92.97 میٹر کی تھرو کرکے نیا اولمپک ریکارڈ قائم کردیا۔
یہ پاکستان کا 32 سال بعد پہلا اولمپک میڈل اور 40 سال بعد پہلا گولڈ میڈل ہے اور ارشد ندیم پاکستان کو انفرادی مقابلوں میں گولڈ میڈل دلوانے والے پہلے ایتھلیٹ ہیں۔
یاد رہے کہ پاکستان نے اس سے قبل آخری بار 1984 کے لاس اینجلس اولمپک گیمز میں صرف ہاکی میں گولڈ میڈل جیتا تھا۔
پچھلے روز 27 سالہ نوجوان ایتھلیٹ ارشد ندیم نے دفاعی چیمپئن انڈیا کے نیرج چوپڑا کو شکست دی اور جیولن تھرو کا اولمپک ریکارڈ توڑ دیا۔
اس سے پہلے کوالیفیکیشن راؤنڈ میں انڈیا کے نیرج چوپڑا پہلے نمبر پر تھے جنہوں نے89.34 تھرو کی تھی جبکہ ارشد ندیم چوتھی پوزیشن پر تھے جنہوں نے 86.59 میٹر تھرو کی تھی۔
بعدازاں گزشتہ روز 8 اگست کو سٹیڈ ڈی فرانس میں ہونے والے فائنل میں پاکستانیوں کی نظریں ارشد ندیم پر تھیں۔ سبھی کو امید تھی کہ ارشد ندیم 32 سال کے طویل عرصے بعد پاکستان کو گولڈ میڈل جتوائیں گے۔
جیولن تھرو کے فائنل مقابلے میں ارشد ندیم نے 92.97 میٹر کی تھرو کرکے 2008 میں قائم کیا گیا ریکارڈ توڑ دیا جو ناروے کے اینڈریاس تھورکلڈسن نے بنایا تھا۔ یہ دنیا میں اب تک پھینکی جانے والی چھٹی سب سے طویل جیولن تھرو تھی۔
پاکستانی ایتھلیٹ نے اس کے بعد اپنی تیسری اور آخری تھرو بھی 90 میٹر سے زیادہ فاصلے پر پھینکی۔ فائنل جیتنے کے بعد ارشد ندیم نے آبدیدہ ہوگئے۔ ان کی ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر بھی وائرل ہورہی ہے جس میں وہ پاکستان پرچم میں لپٹے ہوئے اور اپنے کوچ کو گلے لگا کر رو رہے ہیں۔
فائنل مقابلے میں سلور میڈل دفاعی چیمپئن انڈیا کے نیرج چوپڑا نے حاصل کیا۔ انہوں نے انے فائنل مقابلے میں 89.45 میٹر کی تھرو کی تھی۔ جبکہ برونز (کانسی) کا تمغہ گرینیڈا کے اینڈرسن پیٹرز نے جیتا۔
’اس مرتبہ ہم 14 اگست گولڈ میڈل کے ساتھ منائیں گے‘
گولڈ میڈل جیتنے کے بعد نجی نیوز چینل جیو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے ارشد ندیم نے کہا کہ ’آج میں اس سے بھی بہتر تھرو کر سکتا تھا مگر خدا نے جو قسمت میں لکھا تھا وہ اس نے دیا ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’آج خدا نے ہمیں میڈل سے نوازا ہے اور پوری پاکستانی قوم کی دعائیں میرے ساتھ تھیں۔میں بہت خوش نصیب ہوں کہ پاکستانی قوم نے میرے لیے اتنی دعائیں کیں۔‘
ارشد نے کہا کہ ’میں اپنا گولڈ پاکستانی قوم کے نام کرنا چاہتا ہوں۔ یہ اگست کا مہینہ ہے اور ہم اس مرتبہ 14 اگست گولڈ میڈل کے ساتھ منائیں گے۔‘
پچھلے مقابلوں میں خدا میرے ساتھ تھا مگر آج وہ ارشد کے ساتھ تھا، نیرج چوپڑا
اسی سوال پر نیرج چوپڑا نے کہا کہ ’انڈیا اور پاکستان میں جیولن کے بارے میں زیادہ لوگ نہیں جانتے تھے۔ میں اور ارشد 2016 سے مقابلہ کر رہے ہیں اور پچھلے مقابلوں میں خدا میرے ساتھ تھا مگر آج وہ ارشد کے ساتھ تھا اور میں بہت خوش ہوں کیونکہ ارشد بہت محنت کرتا ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’اب دونوں ممالک میں جیولن مقبول ہوچکی ہے۔ امید ہے کہ نئے لوگ اس کی طرف آئیں گے۔‘
بی بی سی کے مطابق اولمپکس کی تاریخ میں پاکستان کے کل تمغوں کی تعداد 11 ہو گئی ہے جن میں گولڈ اور برونز(کانسی) کے 4، 4 جبکہ سلور (چاندی) کے 3 تمغے شامل ہیں۔ ان 11 میں سے 8 تمغے ہاکی جبکہ باقی 3 جیولن تھرو، ریسلنگ اور باکسنگ میں جیتے گئے ہیں۔
سوشل میڈیا پر ارشد ندیم ٹاپ ٹرینڈ
اولمپکس میں دو دہائیوں بعد پاکستان کے لیے گولڈ میڈل جیتنے پر سوشل میڈیا صارفین نے ارشد ندیم کو مبارک باد دی تو کئی صارفین نے ایتھلیٹ کو سہولت نہ دینے پر شکایت بھی کی۔
وزیراعظم شہباز شریف نے ارشد ندیم کو مبارک باد دیتے ہوئے کہا کہ ’پیرس اولمپکس میں گولڈ میڈل جیت پر پاکستان کا نام فخر سے بلند کیا ہے‘۔
پاکستان کی مسلح افواج، چیئرمین جوائنٹ چیفس آف aسٹاف کمیٹی نے ارشد ندیم کی شاندار کامیابی پر قوم کو مبارکباد دی۔
سندھ حکومت کی جانب سے کراچی کے میئر مرتضیٰ وہاب نے اولمپک میں نیا ریکارڈ بنانے پر ارشد ندیم کے لیے 5 کروڑ روپے انعام کا اعلان کیا۔
پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین محسن نقوی نے بھی ارشد ندیم کو مبارکباد دیتے ہوئے کہا کہ ’تاریخی کامیابی پر پوری قوم کو آپ پر فخر ہے۔‘
محسن نقوی نے کہا کہ ’اولمپک گولڈ میڈل جیتنا اور نیا ریکارڈ قائم کرنا آپ کی محنت، لگن اور عزم کا نتیجہ ہے۔‘
صحافی سلیم خالق نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر لکھا کہ ’طویل عرصے بعد پاکستان کو کھیلوں میں کوئی اچھی خبر ملی، ہم کرکٹرز کو ہیرو بنا کر کروڑوں روپے دے کر ان سے ٹائٹل جیتنے کی امیدیں لگائے بیٹھے رہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’ارشد ندیم سہولتوں سے عاری ایک ایسے ایتھلیٹ ہیں جس کا نام صرف ایونٹس کے دوران ہی ذہن میں آتا ہے‘۔
ارشد ندیم کون ہیں؟
ارشد ندیم کا تعلق پاکستان کے صوبہ پنجاب کے چھوٹے شہر میاں چنوں سے ہے جو لاہور سے 250 کلومیٹر دور ہے۔ ان کی تاریخ پیدائش 2 جنوری 1997 ہے۔ ارشد سات بہن بھائیوں میں تیسرے نمبر پر ہیں اور ان کے والد محمد اشرف مزدوری کرتے ہیں اور گھر کے واحد کمانے والے ہیں۔
ارشد کا خاندان معاشی طور پر مضبوط نہیں ہے جس کی وجہ سے انہیں اپنے کریئر کے ابتدائی دنوں میں کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ ایک موقع پر ارشد ندیم کے والد نے کہا تھا کہ ’لوگوں کو نہیں معلوم کہ ارشد آج اس مقام پر کیسے پہنچا۔ کس طرح اس کے ساتھی گاؤں والے اور رشتہ دار پیسے دیتے تھے تاکہ وہ اپنی ایونٹ میں جانے اور ٹریننگ کے لیے دوسرے شہروں کا سفر کر سکے۔‘