امریکا اسرائیل کو ہتھیاروں کی سپلائی میں ’چیتے جیسی پھرتی‘ دکھا رہا ہے جبکہ غزہ میں انسانی بنیادوں پر امداد کی فراہمی ’کچھوے کی چال‘ سے ہورہی ہے۔ ’فلسطینیوں کی نسل کشی‘ پر بائیڈن انتظامیہ کا یہ رد عمل دنیا کے سامنے ہے۔ اسرائیل فلسطینیوں کو مارنے کے لیے نہ صرف آسمان سے امریکی بم برسا رہا ہے بلکہ بھوک، پیاس اور دواؤں کی قلت کے ذریعے انہیں موت کے منہ میں بھیج رہا ہے۔ 13 اکتوبر کو امریکی وزیرِ خارجہ انتونی بلنکن اور وزیرِ دفاع لائیڈ آسٹن نے اسرائیلی وزیرِ دفاع یوو گیلنٹ اور اسٹرٹیجک افیئرز کے وزیر
امریکا اسرائیل کو ہتھیاروں کی سپلائی میں ’چیتے جیسی پھرتی‘ دکھا رہا ہے جبکہ غزہ میں انسانی بنیادوں پر امداد کی فراہمی ’کچھوے کی چال‘ سے ہورہی ہے۔ ’فلسطینیوں کی نسل کشی‘ پر بائیڈن انتظامیہ کا یہ رد عمل دنیا کے سامنے ہے۔ اسرائیل فلسطینیوں کو مارنے کے لیے نہ صرف آسمان سے امریکی بم برسا رہا ہے بلکہ بھوک، پیاس اور دواؤں کی قلت کے ذریعے انہیں موت کے منہ میں بھیج رہا ہے۔
13 اکتوبر کو امریکی وزیرِ خارجہ انتونی بلنکن اور وزیرِ دفاع لائیڈ آسٹن نے اسرائیلی وزیرِ دفاع یوو گیلنٹ اور اسٹرٹیجک افیئرز کے وزیر ران ڈیرمر کو خط بھیجا۔ جس میں اشارہ دیا گیا کہ غزہ میں دواؤں اور خوراک سمیت امداد کی فراہمی میں رکاوٹ کا اثر ہتھیاروں کی سپلائی پر پڑ سکتا ہے۔ مگر یہ وارننگ بے نتیجہ اور بے اثر رہی۔
خط میں اسرائیل کو غزہ میں انسانی امداد کی صورتحال بہتر بنانے کے لیے 30 دن کی مہلت دی گئی۔ مگر اسرائیل تو پہلے ہی اِس سال مارچ میں امریکہ کو تحریری یقین دہانی کراچکا ہے کہ وہ امداد نہیں روکے گا۔ چھ مہینے سے زائد وقت گزر گیا مگر نہ اسرائیل نے اپنا رویہ بدلا، نہ ہی امریکا نے مؤقف تبدیل کیا، اسرائیل کو اسلحے کی فراہمی بلا روک ٹوک جاری ہے۔
یہ بات تو صاف ظاہر ہے کہ یہ خط ’پی آر اسٹنٹ‘ کے سوا کچھ نہیں جس کا مقصد یہ ظاہر کرنا ہے کہ بائیڈن غزہ میں فلسطینیوں کی مدد کی کوشش کررہے ہیں۔ سب جانتے ہیں کہ اسرائیل بھوک، پیاس اور دواؤں کی قلت کو فلسطینیوں کی نسل کُشی کے لیے ہتھیار کے طور پر استعمال کررہا ہے۔ تو کیا بائیڈن انتظامیہ واقعی بے خبر ہے؟ دوسری جانب امریکی میڈیا بلنکن اورآسٹن کے خط کو سنگین وارننگ بنا کر پیش کررہا ہے۔
انسانی امداد کے لیے کام کرنے والی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی ایجنسیز کی رپورٹس کے مطابق اسرائیل جان بوجھ کر امدادی قافلوں کا راستہ روک رہا ہے، ان رپورٹس میں اسرائیل کو اسلحے کی فراہمی روکنے کی سفارش کی گئی ہے لیکن ان تمام رپورٹس کو نظر انداز کرتے ہوئے بلنکن نے کانگریس میں غلط بیانی کی، کہا کہ ہتھیاروں کی فراہمی روکنے کی کوئی وجہ موجود نہیں۔
ان 30 دنوں کی ڈیڈلائن ختم ہونے سے پہلے 13 نومبر کو امریکا میں الیکشن ہوجائیں گے اور بائیڈن جن کا سیاسی کیریئر جنوری 2025 میں ختم ہونے جا رہا ہے ، انہیں ’اسرائیل لابی‘ کی ضرورت نہیں رہے گی۔ مگر اسرائیل کو ہتھیاروں کی فراہمی روکنے کے لیے بائیڈن کو اپنی پوری سیاسی میموری کو ری سیٹ کرنے کی ضرورت ہے اور وہ ایسا کرنے کے قابل نظر نہیں آتے۔
بائیڈن انتظامیہ کا واحد ایکشن جو مستقل ہوتا ہوا دکھائی دے رہا ہے وہ اسرائیل کو فوجی، مالی اور سفارتی امداد کو ہر قیمت پر جاری رکھنا ہے۔ اسرائیل پر کسی بھی قسم کی تنقید کھوکھلے لفظوں سے بڑھ کر کچھ نہیں جن کا مقصد اندرونی اور عالمی رد عمل میں اٹھنے والی آوازوں کو خاموش کرانا ہے۔ بائیڈن ایسا ظاہر کررہے ہیں جیسے وہ غزہ میں انسانی امداد کا مسئلہ حل کرنے کی کوشش کررہے ہیں مگر درحقیقت فلسطینیوں کی نسل کشی مکمل کرنے کے لیے اسرائیل کو مزید وقت دے رہے ہیں۔ بائیڈن کا یہ کھیل ایک سال سے جاری ہے۔
بائیڈن نے ایک بار کہا تھا کہ ’آپ کو صیہونی ہونے کے لیے یہودی ہونے کی ضرورت نہیں، میں ایک صیہونی ہوں‘۔ ان کا 1970 سے اسرائیل کے لیے یہی سیاسی مؤقف ہے۔ لبنان سمیت مختلف علاقوں میں اسرائیل کے اندھا دھند حملوں پر ان کے ردعمل میں کبھی بھی انسانی یا اخلاقی اظہارِ تشویش سامنے نہیں آیا۔
خوراک ، پانی، دواؤں یا بجلی کے بغیر موجود بچوں، بوڑھوں اور بیمار فلسطینیوں کے لیے 30 دن کے اس انتظار کا مطلب صرف موت ہے۔ غزہ میں سیوریج اور پینے کے پانی کا انفرا سٹرکچر تباہ ہوچکا ہے۔ ہسپتالوں پر بمباری کی گئی، ہیلتھ کیئر کا عملہ مارا گیا۔ اس انتظار کے نتائج کا اصل اندازہ صرف ڈاکٹرز ہی لگا سکتے ہیں۔
مجھے کوئی شک نہیں کہ صیہونیوں نے سارا حساب لگا رکھا ہے کہ جسم کا کون سا حصہ کام کرنا چھوڑے گا یا کھانے، پانی اور دواؤں کی کمی کی وجہ سے لوگوں کی صحت کو کب ایسا نقصان پہنچے گا کہ ان کا بچنا ممکن نہ رہے۔ غزہ میں امداد کی فراہمی میں مسلسل رکاوٹ نے اسے کئی دہائیوں سے ایک ’کنسنٹریشن کیمپ‘ میں تبدیل کررکھا ہے اور یہ سب کچھ ’Medical Genocide‘ (طبی قتل عام) کے منصوبے کا حصہ ہے۔
غزہ میں جو کچھ ہورہا ہے اُس سے تو نازی ڈاکٹر جوزف مینگل بھی اپنی قبر سے نکل آئے گا، وہی جوزف مینگل جنہیں یہودی بچوں کے ساتھ بھیانک اور غیرانسانی تجربات کی وجہ سے ’اینجل آف ڈیتھ‘ یعنی موت کا فرشتہ کہا جاتا تھا کیونکہ انہیں کبھی بھی اپنے مظالم پر پچھتاوا نہیں ہوا۔ کیا کسی ایک صیہونی کو بھی غزہ میں جاری ’نسل کُشی‘ پر تکلیف ہوئی؟
خود صیہونیوں کی بات چھوڑیں، وہ تو فلسطینیوں کو انسان بھی ہی نہیں سمجھتے۔ لیکن کیا اسرائیل کی حامی مغربی حکومتیں بھی ایسا تسلیم کرتی ہیں کہ غزہ میں جاری انسانی بحران دراصل ایک ’میڈیکل قتلِ عام‘ ہے؟