امریکہ کے اگلے صدر کے لیے اس سال 5 نومبر کو الیکشن ہوں گے، جو امیدوار جیتے گا اس کی حکومت جنوری 2025 سے شروع ہو گی اور وہ 4 سال تک وائٹ ہاؤس میں رہے گا۔
اس سال تقریباً 18 کروڑ 65 لاکھ امریکی ووٹ ڈال سکتے ہیں۔
لیکن امریکہ میں صدر کا انتخاب ڈائریکٹ عام ووٹر نہیں بلکہ یہ کام الیکٹورل کالج کا ہے۔ الیکٹورل کالج کے ارکان کو ’الیکٹر‘ کہتے ہیں، جو عوام کے ووٹوں سے جیتتے ہیں، اور ان کا کام ملک کے صدر اور نائب صدر کو چننا ہے۔
امریکی صدارتی انتخابات میں کون ووٹ ڈال سکتا ہے؟
18 سال یا زائد عمر والے امریکی شہری صدارتی انتخابات میں ووٹ ڈالنے کے اہل ہیں۔ زیادہ تر ریاستیں انتخابات سے قبل ووٹرز کی رجسٹریشن کرتی ہیں۔ امریکہ کے الیکشن میں ووٹ دینے کے لیے امریکی شہریت ہونا لازمی ہے اور جس ریاست میں ووٹ ڈالیں اس کا رہائشی ہونا ضروری ہے۔
ایک اندازے کے مطابق امریکہ میں 23 کروڑ سے زیادہ لوگ ووٹ ڈالنے کے اہل ہیں۔ لیکن ان میں سے تقریباً 16 کروڑ افراد رجسٹرڈ ووٹرز ہیں۔
2024 کے انتخابات کے لیے رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد 161.42 ملین ہے۔ یہ ووٹرز الیکٹرز کے انتخاب کے لیے ووٹنگ کریں گے جو بعد میں صدر کا انتخاب کریں گے۔
الیکٹورل کالج کیا ہے؟
نومبر کے پہلے ہفتے میں ہونے والی ووٹنگ الیکٹرز کو چننے کے لیے ہوگی۔
الیکٹر کی کل تعداد 538 ہوتی ہے۔ جس کے بعد دسمبر میں الیکٹرز اپنی اپنی ریاست میں ایک جگہ اکھٹے ہو کر صدر کے لیے ووٹ ڈالتے ہیں۔
حالیہ قانون کے تحت یہ الیکٹرز صرف اسی امیدوار کو ووٹ ڈالیں گے جن کے نام سے انہوں نے ووٹ لیے ہیں لیکن پہلے ایسا نہیں ہوتا تھا۔
ہر اسٹیٹ کے پاس آبادی کے لحاظ سے الیکٹورل کالج ووٹوں کی ایک مخصوص تعداد ہوتی ہے۔ صدارتی امیدوار کو کُل 538 الیکٹورل ووٹس میں سے 270 یا زیادہ الیکٹورل ووٹ لینے والا جیت کا حق دار ہوتا ہے۔ لیکن الیکٹرز کیسے منتخب ہوتے ہیں؟ امریکہ کی 50 ریاستوں میں جو بھی امیدوار زیادہ ووٹ حاصل کرتا ہے، وہی ریاست کے تمام الیکٹورل ووٹس کا حق دار ہو جاتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر ٹرمپ کو ریاست کیلیفورنیا سے 50 فیصد الیکٹرز ملتے ہیں اور کملا ہیرس کو 49.99 فیصد الیکٹرز، اب فرق صرف 0.01 فیصد کا ہے لیکن چونکہ ٹرمپ کو کملا سے زیادہ الیکٹرز ملے ہیں تو کملا کے سارے الیکٹرز بھی ٹرمپ کے پاس چلے جائیں گے۔
کون کون صدارتی انتخاب کی دوڑ میں شامل ہے؟
امریکہ کے صدارتی دوڑ کے لیے دو امیدوار آمنے سامنے ہیں۔ ریپبلکن پارٹی سے ڈونلڈ ٹرمپ اور ڈیموکریٹک پارٹی کی نمائندگی کملا ہیرس کررہی ہیں۔
دونوں امیدوار ملک بھر کی ریاستوں میں انتخابی مہم چلا رہے ہیں اور ریلیوں سے خطاب کررہے ہیں۔
ڈیموکریٹس اور ریپبلیکنز کا ایجنڈا کیا ہے؟
ڈیموکریٹس ایک لبرل سیاسی جماعت ہے جس کے ایجنڈے میں شہری حقوق کے لیے کام کرنا، سوشل سیکیورٹی کے لیے وسیع تر اقدامات کرنا ( گورمنٹ پروگرامز جو صحت، تعلیم، خوراک ، رہائش اور پنشن کے معاملات کو دیکھتے ہیں) اورماحولیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے اقدامات کرنا شامل ہیں۔
دوسری جانب ریپبلیکنز امریکہ کی قدامت پسند یا کنزرویٹو سیاسی جماعت ہے۔ اس کو جی او پی یعنی گریٹ اولڈ پارٹی بھی کہا جاتا ہے۔ ریپبلیکنز کم ٹیکسز، گورمنٹ کے سائز کو محدود رکھنے، ہتھیاررکھنے کے حقوق، امیگریشن اور ابورشن پر سخت قوانین کی حمایت کرتے ہیں۔
سوئنگ ریاستیں کیا ہیں؟
امریکی انتخابات میں سوئنگ سٹیٹس خاص طور پر اہم ہیں کیونکہ وہاں دونوں میں سے کوئی بھی پارٹی کسی بھی وقت جیت سکتی ہے۔ امریکی نتائج کے وقت زیادہ تر ریاستوں میں ریپبلکن اور ڈیموکریٹک میں سے جو جیتتا ہے اس کا جلد ہی پتہ چل جاتا ہے، لیکن سوئنگ ریاستیں میں کانٹے کا مقابلہ ہوتا ہے تو وہاں ایسی پیشنگوئی کرنا مشکل ہے۔ ان ریاستوں کو ’میدان جنگ‘ بھی کہا جاتا ہے جہاں امیدوار ووٹ حاصل کرنے کی کوشش میں بہت زیادہ وقت اور پیسہ لگاتے ہیں۔
سوئنگ ریاستوں میں، ووٹوں میں چھوٹی تبدیلی بھی نتائج کا رخ بدل سکتی ہے۔ اس سال سوئنگ ریاستوں میں ایریزونا، جارجیا، مشی گن، نیواڈا، شمالی کیرولینا، پنسلوانیا اور وسکونسن شامل ہیں جن کے مجموعی طور پر 93 الیکٹورل کالج ووٹ ہیں۔ یہ ریاستیں بدلتی ہوئی آبادی کے ساتھ شہروں اور دیہی علاقوں کے درمیان مختلف نظریات کی وجہ سے منقسم ہیں۔
2016 میں ٹرمپ نے پنسلوانیا میں بہت کم ووٹوں سے کامیابی حاصل کی، اس کے باوجود وہ صدر بن گئے۔ 2020 میں بائیڈن نے پنسلوانیا جیت لیا اور جارجیا میں بھی کامیابی حاصل کی جس کی وجہ سے وہ صدر بنے۔ یہ ریاستیں غیر متوقع ہیں، لیکن ان کا ہر ووٹ 2024 میں نتائج کا فیصلہ کر سکتا ہے۔