جب تمام معاشرے خدا کی راہ میں شہید ہونے کا مطلب بھول چکے تھے، ایسے میں آزادی کی جنگیں بہت سے گمنام ہیروز کو منظر عام پر لے آئیں۔ پہلی جنگ عظیم اور ترکیہ کی جنگ آزادی کی تاریخ سیکڑوں بے نام ہیروز اور بہادری کی بے شمار کہانیوں سے بھری پڑی ہے۔ حال ہی میں پروفیسر مظہرباگلی (ترک ماہر سماجی علوم) نے فرانسیسی قبضے سے عرفہ کی آزادی میں میئر اور قبائل کے منظم کردار کے بارے میں بات کی۔ ہم ان تاریخی حقائق کو اپنے ملک کے چپے چپے پر اور سلطنت عثمانیہ کی چھن جانے والی زمینوں میں دیکھ سکتے ہیں۔ فلسطین کے محاذ
جب تمام معاشرے خدا کی راہ میں شہید ہونے کا مطلب بھول چکے تھے، ایسے میں آزادی کی جنگیں بہت سے گمنام ہیروز کو منظر عام پر لے آئیں۔ پہلی جنگ عظیم اور ترکیہ کی جنگ آزادی کی تاریخ سیکڑوں بے نام ہیروز اور بہادری کی بے شمار کہانیوں سے بھری پڑی ہے۔ حال ہی میں پروفیسر مظہرباگلی (ترک ماہر سماجی علوم) نے فرانسیسی قبضے سے عرفہ کی آزادی میں میئر اور قبائل کے منظم کردار کے بارے میں بات کی۔ ہم ان تاریخی حقائق کو اپنے ملک کے چپے چپے پر اور سلطنت عثمانیہ کی چھن جانے والی زمینوں میں دیکھ سکتے ہیں۔
فلسطین کے محاذ پر غزہ سلطنت عثمانیہ کا آخری مضبوط گڑھ تھا۔ گیلی پولی کے شہداء کے قبرستان میں دفن غزہ کے باشندوں کی تعداد اناطولیہ کے صوبوں میں ہمارے شہداء سے کم نہیں ہے۔ جب انگریز انڈیا اور نیوزی لینڈ جیسی نوآبادیات سے لائے گئے فوجیوں کے ساتھ گیلی پولی کی جنگ لڑ رہے تھے، سلطنت عثمانیہ فلسطین سے لے کر بوسنیا اور حلب دیگر کے ساتھ جنگ لڑ رہی تھی۔
سلطنت عثمانیہ کی 100 سالہ پسپائی کی کہانی ان قوموں کے لیے دردناک کہانیوں سے بھری ہوئی ہے جنہوں نے اپنی سرزمینیں کھو دیں۔ نوآبادیاتی دور نے کوئی ملک خالی نہیں چھوڑا۔ پھر بھی انگریز آج کے دور میں ایسے زندگی گزاررہے ہیں جیسے ماضی میں ان کی کوئی کالونی نہ تھی اور گویا انہوں نے انسانیت کو کوئی تکلیف نہ پہنچائی ہو۔ مثال کے طور پر استنبول پر برطانوی قبضے اور ان کی واپسی کا ذکر بالکل نہیں کیا جاتا۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے بھوتوں نے استنبول پر حملہ کر دیا اور پیچھے ہٹ گئے۔
قوموں کے وجود کے لیے مضبوط قیادت ہی نہیں بہادر ہیروز بھی اہم ہیں، اس قوم کی تاریخ عظیم قربانیوں اور بہادری سے بھری پڑی ہے جس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ اس کے باوجود سامراجی طاقتوں کی ثقافتی یلغار کی وجہ سے فاتح سلطان مہمت اور عبدالحمید کے سوا تمام ہیروز کے نام ہماری یادوں سے مٹ چکے ہیں۔ تاہم اس قوم کے بچے یونانی دیوتاؤں اور مغرب کے جھوٹے ہیروز کو دل سے جانتے ہیں۔
جب غزہ کی جنگ شروع ہوئی تو لوگوں نے سمجھا کہ انسانیت کو ایک نئی صورتحال کا سامنا ہے۔ جنگ شروع ہونے سے پہلے دنیا کے تمام ممالک اسٹاک مارکیٹ، پیسہ، بِٹ کوائن اور سوشل میڈیا انفلوئنسرز جیسے مادی مسائل میں گھرے ہوئے تھے۔ لوگ سوال کرتے تھے کہ ’میں دوسروں کی طرح خرچ کیوں نہیں کر سکتا؟‘ یا ’امریکہ میں بے پناہ دولت‘ کی تعریف کرتے تھے۔ یہاں تک کہ مذہبی رہنما بھی مادیت میں پھنس گئے۔
جب اسرائیل نے غزہ میں نسل کشی شروع کی تو ہمیں ایک غیر معمولی صورتحال کا سامنا کرنا پڑا۔ ہمیں علم ہوا کہ حالات کتنے ہی سخت کیوں نہ ہوں، ایسے لوگ ہیں جو اسرائیلی ویمپائرز کا مقابلہ کرتے ہیں۔ یہ ایمان والوں کا معاشرہ تھا جو اللہ پر ایمان رکھتے تھے۔ کہتے تھے کہ ہمارے لیے اللہ ہی کافی ہے۔ غزہ کے مسلمانوں نے باقی دنیا کے مسلمانوں کو اپنے عقیدے کا جائزہ لینے کا راستہ دکھایا، ہزاروں مسیحی لوگوں نے غزہ کے اُن والدین سے متاثر ہو کر اسلام قبول کیا جنہوں نے اپنے بچے کھو دیے۔
اسماعیل ہنیہ، یحییٰ سنوار جیسے رہنماؤں اور ہزاروں ہیروز سمیت غزہ کے لوگوں نے انسانیت کو یاد دلایا کہ اچھائی، اخلاقیات اور انسانی اقدار اب بھی موجود ہیں۔ ساتھ ہی انہوں نے دنیا کو دکھایا کہ کس طرح شیطان کے سپاہی صیہونیوں نے انہیں غلام بنا رکھا ہے۔ آج امریکہ، برطانیہ اور جرمنی میں فلسطین میں نسل کشی کے خلاف احتجاج کرنے والے لوگوں کو احساس ہے کہ ان کے اپنے ممالک بھی غزہ کی طرح محصور ہیں۔ مرحوم اربکان (سابق ترک وزیراعظم) نے عمر بھر یہی آواز بلند کی کہ صیہونیت نے ایک آکٹوپس کی طرح پوری دنیا کو لپیٹ میں لے لیا ہے۔ غزہ کی جنگ نے اس بیان کو پہلے سے کہیں زیادہ واضح کر دیا ہے۔
عزالدین القسام مصر میں زیرتعلیم تھے اور وہیں سے گیلی پولی مہم میں شامل ہونے کے لیے روانہ ہوئے، لیکن ان کے پہنچنے سے پہلے ہی جنگ ختم ہو گئی۔ وہ اپنے وطن واپس آئے اور قابض انگریزوں اور صیہونیوں کے خلاف اپنے لوگوں کو منظم کیا اور شہداء کے اس کارواں کا حصہ بنے جس کا آغاز رسول اللہﷺ کے چچا حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ سے ہوا تھا۔
تمام فلسطینی رہنماؤں کا یقین ہے کہ شہادت ان کا مقدر ہے۔ اسماعیل ہنیہ کی شہادت نے تمام مسلمانوں میں مایوسی کی کیفیت پیدا کردی۔ بے بسی کا احساس سب سے زیادہ پریشان کن ہوتا ہے۔
لیکن اللہ کی رحمت اور شہادت کی برکت سے فلسطینیوں کی نسل کشی کے خلاف شیر کی طرح لڑنے والے یحییٰ سنوار کی شہادت فلسطین کی جنگ آزادی کے لیے ایک نئی امید بن گئی۔
آج عالمی میڈیا اسرائیل کی اس بھیانک غلطی پر بات کر رہا ہے۔ لوگ یہ کہہ رہے ہیں کہ شہید یحییٰ سنوار لازوال ہیرو بن گئے۔ سنوار کے بارے میں اسرائیل اور امریکہ کے جھوٹ کی بنیاد پر مغربی ایکٹیوسٹس پوچھ رہے ہیں کہ ’ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ انہوں نے ہم سے مزید کتنے جھوٹ بولے ہیں؟
جس وقت مسلم دنیا اپنی طاقت سے محروم ہوتی نظر آرہی تھی غزہ کے عظیم ہیروز نے سب سے پہلے ہمیں یاد دلایا کہ مسلمان ہونے، نیکی اور اعلیٰ اخلاق کا مطلب کیا ہے اور اللہ کا بندہ ہونا کیا ہے۔ آزادی کے متوالے دیگر مجاہدین کی طرح یحییٰ سنوار نے ہمیں سمجھایا کہ اب بھی فخرالدین پاشا (عثمانی فوج کے آخری کمانڈرز میں سے ایک، جو محافظ مدینہ کے لقب سے مشہور ہوئے) جیسے لوگ موجود ہیں جو بے خوفی سے لڑ کر پوری دنیا میں بیداری اور امید پیدا کرسکتے ہیں ۔
خدا اُن کے درجات بلند کرے، کچھ لوگ ان کا موازنہ عمر مختار (لیبیا کے مجاہد جنہیں صحرا کا شیر کہا جاتا ہے،1931 میں اٹلی کی فوج نے انہیں پھانسی دے دی تھی) سے کرتے ہیں۔ سامراجی قوتوں کو اپنے مستقبل کی فکر کرنی چاہیے۔ فلسطینیوں کی روح کو نسل کُشی سے کچلا نہیں جاسکتا۔ وہ دوبارہ اُٹھیں گے اور پھر ظالم سامراجیوں کو اِس دنیا میں، جسے وہ سب کچھ سمجھتے ہیں، کہیں امن نہیں ملے گا، نہ ہی اُس آخرت میں جس پر وہ ایمان نہیں رکھتے۔