پاکستان کے آئین میں 26ویں ترمیم کا بل سینیٹ کے بعد قومی اسمبلی سے منظور ہونے کے بعد صدر مملکت آصف علی زرداری نے بھی بل کے مسودے پر دستخط کردیے جس کے بعد یہ ترمیم بطور قانون نافذ العمل ہوگئی ہے۔
پچھلے مہینے سے شہباز شریف کی حکومت پارلیمنٹ کے ذریعے آئین میں تدیلیاں لانے کی کوششیں کررہی ہے، تاہم اپوزیشن اور وکلا کا کہنا ہے کہ ان تبدیلیوں کا مقصد ججز کی تقرری پر حکومت کا کنٹرول ہے تاہم حکومت اس دعوے کی تردید کررہی ہے۔ وزیر اعظم شہباز شریف نے اس ترمیم کو ملک کی آئینی تاریخ میں ایک اہم ’سنگ میل‘ قرار دیا۔
ترمیم کے مطابق چیف جسٹس آف پاکستان کا تقرر 12 رکنی پارلیمانی کمیٹی تین سال کی مدت کے لیے کرے گی۔ چیف جسٹس کی ریٹائرمنٹ کی عمر 65 سال ہوگی۔
پاکستان کے سرکاری میڈیا چینل کے مطابق سینیٹ کا اجلاس چیئرمین یوسف رضا گیلانی کی زیرصدارت ہوا جس میں وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے ایوان میں ترمیم پیش کی۔ بل کے مطابق سپریم کورٹ کے اندر ایک آئینی بینچ قائم کیا جائے گا، اسی طرح کے بینچ صوبوں میں بھی قائم کیے جاسکتے ہیں۔
سینیٹ کے چیئرمین یوسف رضا گیلانی نے کہا کہ 65 ارکان نے بل کے حق میں ووٹ دیا، 4 نے اس کے خلاف ووٹ دیا۔ لہذا اس ترمیم کو دو تہائی اکثریت سے منظور کیا جاتا ہے۔
یہ بل اب قومی اسمبلی سے بھی دو تہائی اکثریت سے منظور ہوا۔ اجلاس کی سربراہی اسپیکر ایاز صادق نے کی۔ قومی اسمبلی کے اجلاس میں وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے ترمیم پیش کرنے کی تحریک پیش کی، تحریک کی منظوری کے لیے 225 اراکین اسمبلی نے ووٹ دیے جبکہ 12 ارکان نے مخالفت میں ووٹ دیا۔
جس کے بعد صدر مملکت آصف علی زرداری نے 26ویں آئینی ترمیم پر دستخط کردیے اور گزٹ نوٹی فکیشن کے بعد 26ویں آئینی ترمیم بطور قانون نافذ ہوگئی ہے۔
اس سے پہلے سینیٹ میں اظہار خیال کرتے ہوئے وزیر قانون نے کہا کہ بل کا مقصد عام لوگوں کو فوری انصاف کی فراہمی کو یقینی بنانا ہے۔
عمران خان کی اپوزیشن جماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے دعویٰ کیا ہے کہ حکومت ان ترامیم کو موجودہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی مدت ملازمت میں توسیع کرنے کے لیے پیش کررہی ہے تاہم وفاقی حکومت نے ان الزامات کی تردید کی ہے۔
تحریک انصاف نے ایک بیان میں کہا کہ ’پی ٹی آئی کی سیاسی کمیٹی نے پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں ووٹنگ کے عمل کا بائیکاٹ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔‘
بل کی منظوری پر وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ ’قوم کی ترقی اور عوام کی فلاح و بہبود کے لیے یہ فیصلہ ملک کے بہترین مفاد ہے۔ ہم نے معیشت کو مستحکم کرنے کے بعد آئینی استحکام اور ملک میں قانون کی حکمرانی کے لیے ایک سنگ میل حاصل کیا ہے۔‘
پاکستان پیپلز پارٹی نے اپوزیشن جماعتوں اور وکلا کو متنازع ترامیم کی حمایت پر آمادہ کرنے کی کوششوں کی تھیں۔
ہفتے کی رات ایک پریس کانفرنس کے دورانپیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اور جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے اعلان کیا کہ دونوں کے درمیان ’بڑے‘ تنازعات حل ہو گئے ہیں۔
انہوں نے یہ اعلان ایسے وقت میں کیا تھا جب حکومت نے بل کے ابتدائی مسودے سے کچھ حصے ہٹا دیے جن پر اپوزیشن کو تحفظات تھے۔
مولانا فضل الرحمان نے صحافیوں کو بتایا کہ ’حکومت ان تمام متنازع حصوں کو ہٹانے پر راضی ہے جن پر ہمیں اعتراض تھا۔ اس وقت ترامیم کے حوالے سے ہمارے درمیان کوئی بڑا تنازع نہیں ہے اور زیادہ تر متنازع معاملات طے پا چکے ہیں۔
بل کی ترامیم میں کیا شامل ہے؟
بل کے مطابق سپریم کورٹ کا آئینی بینچ تشکیل دیا جائے گا۔ جوڈیشل کمیشن آئینی بینچز اور ججز کی تعداد کا تقرر کرے گا۔ آئینی بینچز میں جہاں تک ممکن ہو تمام صوبوں سے مساوی ججز تعینات کیے جائیں گے۔
آرٹیکل 184 کے تحت از خود نوٹس کا اختیار آئینی بینچز کے پاس ہوگا۔ آرٹیکل 185 کے تحت آئین کی تشریح سے متعلق کیسز آئینی بینچز کے دائرہ اختیار میں آئیں گے۔ آئینی بینچ کم سے کم پانچ ججز پر مشتمل ہوگا۔
آئینی بینچز کے ججز کا تقرر تین سینیئر ترین ججز کی کمیٹی کرے گی۔ چیف جسٹس کا تقرر خصوصی پارلیمانی کمیٹی کی سفارش پر کیا جائے گا۔ پارلیمانی کمیٹی سپریم کورٹ کے تین سینیئر ترین ججز میں سے چیف جسٹس کا تقرر کرے گی
کمیٹی کی سفارش پر چیف جسٹس کا نام وزیراعظم صدر مملکت کو بھجوائیں گے۔ پارلیمانی کمیٹی چیف جسٹس کی تعیناتی دو تہائی اکثریت سے کرے گی۔ کسی جج کے انکار کی صورت میں اگلے سینیئر ترین جج کا نام زیر غور لایا جائے گا۔
چیف جسٹس کے تقرر کے لئے 12 رکنی خصوصی پارلیمانی کمیٹی بنائی جائےگی۔ پارلیمانی کمیٹی میں تمام پارلیمانی پارٹیوں کی متناسب نمائندگی ہوگی۔ پارلیمانی کمیٹی میں 8 ارکان قومی اسمبلی چار ارکان سینٹ ہوں گے۔
بل کے مطابق چیف جسٹس آف پاکستان کی مدت تین سال ہوگی۔ چیف جسٹس کے لیے عمر کی حد 65 سال مقررہے۔
آرٹیکل 184 تین کے تحت سپریم کورٹ اپنے طور پر کوئی ہدایت یا ڈیکلریشن نہیں دے سکتی۔ آرٹیکل 186 اے کے تحت سپریم کورٹ ہائی کورٹ کے کسی بھی کیس کو کسی دوسری ہائی کورٹ یا اپنے پاس منتقل کر سکتی ہے۔
سپریم کورٹ کے ججز کا تقرر جوڈیشل کمیشن کرے گا۔ چیف جسٹس کی سربراہی میں کمیشن میں چار سینیئر ترین ججز شامل ہوں گے۔ وفاقی وزیر قانون اٹارنی جنرل بھی کمیشن کے ارکان ہوں گے۔
کم سے کم 15 سال تجربے کا حامل پاکستان بار کونسل کا نامزد کردہ وکیل دو سال کے لیے کمیشن کا رکن ہوگا۔ دو ارکان قومی اسمبلی اور دو ارکان سینٹ کمیشن کا حصہ ہوں گے۔ سینیٹ میں ٹیکنوکریٹ کی اہلیت کی حامل خاتون یا غیر مسلم کو بھی دو سال کے لیے کمیشن کا رکن بنایا جائے گا۔
آرٹیکل 38 میں ترمیم کے تحت جس حد تک ممکن ہو سکے یکم جنوری 2028 تک سود کا خاتمہ کیا جائے گا
وزیراعظم یا کابینہ کی جانب سے صدر مملکت کو بھجوائی گئی ایڈوائس پر کوئی عدالت، ٹریبیونل یا اتھارٹی سوال نہیں اٹھا سکتی۔ شریعت کورٹ میں سپریم کورٹ جج لگایا جاسکے گا۔