بلوچستان میں جبری گمشدگیوں کے خلاف بلوچ ہکجہتی کمیٹی کی جانب سے کراچی پریس کلب کے سامنے احتجاج کیا گیا۔ پولیس نے مظاہرین کو منتشر کرنے کی کوشش کی جس کے بعد قانون نافذ کرنے والے اہلکاروں اور مظاہرین میں جھڑپیں ہوئیں اور کئی افراد کو گرفتار کیا گیا۔
مظاہرین نے بینرز اٹھا رکھے تھے جن پر ’جبری گمشدگیوں پر خاموشی توڑو‘ کے نعرے درج تھے۔ رپورٹس کے مطابق انہوں نے کراچی پریس کلب کی طرف مارچ کرنے کی کوشش کی لیکن وہاں طرف جانے والی تمام سڑکیں بند کر دی گئیں اور پولیس اہلکاروں نے انہیں آگے بڑھنےسے روک دیا۔
ٹریفک پولیس نے ایم آر کیانی روڈ کو فوارہ چوک سے، ایوان صدر روڈ کا ایک حصہ اور سرور شہید روڈ کو کراچی پریس کلب تک سیکیورٹی وجوہات کی بنا پر بند کر دیا۔
مارچ کی قیادت کرنے والی سمی دین بلوچ نے میڈیا کو بتایا کہ بلوچستان اور کراچی سے حالیہ دنوں میں بہت سے لوگوں کو زبردستی غائب کیا گیا ہے۔ انہوں نے کراچی سے 9 بلوچ اسٹوڈنٹس کی جبری گمشدگی کا دعوٰی کیا۔
وہ کہتی ہیں کہ ’ہم قانون نافذ کرنے والے اداروں سے الجھنا نہیں چاہتے، صرف احتجاج کا آئینی اور قانونی حق استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ ہمارے پاس ہتھیار نہیں ہیں، ہم صرف مسنگ پرسنز کی تصاویر اٹھا کر احتجاج کرنا چاہتے تھے لیکن ہمیں روک دیا گیا۔‘
ایک اور بیان میں بلوچ یکجہتی کمیٹی نے کہا کہ پولیس نے پرامن مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے لاٹھی چارج کیا اور بلوچ یکجہتی کمیٹی کے ڈپٹی آرگنائزر وہاب بلوچ سمیت کئی افراد کو گرفتار کر لیا ۔
ڈپٹی انسپیکٹر جنرل ساؤتھ سید اسد رضا نے میڈیا نمائندوں سے بات کرتے ہوئے لاٹھی چارج کے الزام کو مسترد کردیا۔ تاہم انہوں نے 5 لوگوں کی گرفتاری کی تصدیق کی۔
دوسری طرف بلوچ سماجی کارکن ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ نے انسٹاگرام پرایک پوسٹ پر الزام کہ ’پاکستان پیپلز پارٹی ہمیشہ سے ایک بلوچ دشمن جماعت رہی ہے اور اس نے بلوچوں پر ظلم و ستم کے لیے ریاست کے فرنٹ مین کا کردار ادا کیا ہے۔ پریس کلب کے سامنے بلوچ ماؤں، بہنوں اور بزرگوں پر ہونے والا تشدد اس جبر کا تسلسل ہے‘۔
انہوں نے لکھا کہ ’آج کے اس ظلم کے باوجود ہمارے ارادے کمزور نہیں ہوں گے۔ ہم جھکیں گے نہیں، ہم لڑیں گے او اپنے حق کو حاصل کریں گے۔ یہ ہماری قوم کی بقاء کی جدوجہد ہے اس پر سمجھوتا نہیں ہوگا۔‘