یہ یقین کرنا مشکل ہے کہ بائیڈن انتظامیہ کی جانب سے اسرائیل کو بھییجا گیا خط، جس میں کہا گیا کہ غزہ میں امداد کی فراہمی روکنے کی صورت میں ہتھیاروں کی سپلائی روکی جاسکتی ہے، امریکی صدارتی الیکشن سے منسلک نہیں ہے۔ غزہ میں ایک سال سے جاری نسل کُشی اورشہریوں کو غذائی قلت کا شکار کرنے والی پالیسیز پر آنکھیں بند رکھنے والی بائیڈن حکومت کو الیکشن سے صرف تین ہفتے پہلے غزہ کا بحران یاد آگیا۔ اس کی ٹائمنگ اور خط کے مندرجات لیک ہونا ممکنہ طورپر دوہفتوں سے اسرائیل کے ساتھ جاری مذاکرات کا ایک حصہ ہوسکتا ہے۔
یہ یقین کرنا مشکل ہے کہ بائیڈن انتظامیہ کی جانب سے اسرائیل کو بھییجا گیا خط، جس میں کہا گیا کہ غزہ میں امداد کی فراہمی روکنے کی صورت میں ہتھیاروں کی سپلائی روکی جاسکتی ہے، امریکی صدارتی الیکشن سے منسلک نہیں ہے۔ غزہ میں ایک سال سے جاری نسل کُشی اورشہریوں کو غذائی قلت کا شکار کرنے والی پالیسیز پر آنکھیں بند رکھنے والی بائیڈن حکومت کو الیکشن سے صرف تین ہفتے پہلے غزہ کا بحران یاد آگیا۔ اس کی ٹائمنگ اور خط کے مندرجات لیک ہونا ممکنہ طورپر دوہفتوں سے اسرائیل کے ساتھ جاری مذاکرات کا ایک حصہ ہوسکتا ہے۔ امریکی حکومت اپنے عوام کو پییغام دیتی نظر آرہی ہے کہ وہ غزہ میں انسانی بحران کو حل کرنے میں سنجیدہ ہے اور اس کے لیے ضرورت پڑی تو اسرائیل کی فوجی امداد روکی جاسکتی ہے۔ مگر بظاہر یہ کوشش غزہ کی صورتحال کے بارے میں کم اور الیکشن سے پہلے ایران کے ساتھ کسی بھی قسم کی جنگ کا خطرہ مول لینے سے بچنے سے معتلق زیادہ ہے۔
بائیڈن ایران سے جنگ نہیں چاہتے
بائیڈن انتظامیہ نے اسرائیل پر 7 اکتوبر کے حملے کو وجہ بنا کر غزہ پر حملوں کی حمایت کی۔ اس نے امریکہ بھر میں ہونے والے مظاہروں سے جنگ بندی کے مطالبات کو نظر انداز کیا اور قانونی حدود کے باوجود اسرائیل کے لیے امریکی فوجی امداد کو ایسے طریقوں سے استعمال کرنے کی اجازت دی جس سے عام شہریوں کو نقصان ہوا۔ امریکہ کی جانب سے اسرائیل کو ہتھیاروں کو مسلسل فراہمی کی وجہ سے اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے کچھ عہدیداروں نے مستعفی ہونے کا اعلان بھی کیا۔ امریکی حکومت نے ایک ریڈ لائن طے کررکھی تھی کہ اگر اسرائیل رفح میں داخل ہوا تو فوجی امداد روک دی جائے گی مگر اس دھمکی کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔
پھر شام میں ایرانی قونصلیٹ پر اسرائیلی حملے کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال میں امریکی حکومت پرعوامی دباؤ کم ہوگیا اور کانگریس نے خاموشی سے اسرائیل کے لیے 17 ارب ڈالرز کا امدادی پیکج منظور کرلیا، جبکہ 9 ارب ڈالرز غزہ میں امداد کے لیے رکھے۔ بائیڈن انتظامیہ غزہ کے حالات زندگی کو بہتر بنانے میں مدد کے لیے مالی مدد فراہم کرنے کے لیے تیار تھی، لیکن صرف اس صورت میں جب اسرائیل نے ایسے اقدامات نہیں کیے جو جاری تنازعہ کو مزید خراب کر دیں۔ مگر نیتن یاہو خطرے کو بڑھاتے رہے اور بائیڈن انتظامیہ صورتحال کو سنبھالنے کی کوشش کرتی رہی۔ امریکی حکومت کے پاس غزہ میں جاری جنگ یا اسرائیل۔فلسطین تنازعے کو حل کرنے کی کوئی حکمت عملی نہیں تھی۔ حد تو یہ ہے کہ قیدیوں کے تبادلے کی بنیاد پر بھی تل ابیب کو سیز فائر پر راضی نہیں کیا جا سکا۔
شام میں ایرانی قونصلیٹ پر حملے کے ذریعے نیتن یاہو نے اسرائیل-ایران کشیدگی کو ہوا دی۔ ساتھ ہی جنوبی لبنان میں حزب اللہ کی موجودگی کو بھی ایجنڈے پر رکھا۔ خطے میں جنگ کے خطرے کو بھانپنے کے باوجود بائیڈن انتظامیہ مجبور تھی کہ وہ اسرائیل کی سیکیورٹی کے لیے امریکی فوجیوں اور ہتھیار بھیجے۔ شروع سے ہی بائیڈن کی توجہ علاقائی تنازعہ سے بچنے پر تھی اور اس کی یہی کوشش تھی کہ معاملہ غزہ تک محدود رہے۔ مگر اسرائیل کی بھرپور کوشش تھی کہ موقع ملتے ہی واشنگٹن کو ایران کے خلاف جنگ میں دھکیلے۔ اپریل اور اکتوبر میں ایران کے براہ راست جواب نے نیتن یاہو کا کام آسان کردیا، اگرچہ بائیڈن اب بھی ایران کے ساتھ جنگ کے خواہشمند نہیں تھے۔
ایران کے ایٹمی طاقت بننے کے امکانات
امریکہ نے غزہ میں ہونے والی تباہی کے منفی اثرات یا نتائج کو اپنے اسٹریٹجک مفادات کے لحاظ سے معمولی سمجھا۔ اگرچہ امریکہ نے اپنی عزت کھو دی اور دہرے معیار کے بے نقاب ہونے کے باوجود اسرائیل کے لیے سفارتی حمایت برقرار رکھی۔ غزہ میں قتلِ عام کو نظر انداز کرنے کے لیے امریکی فوجیوں کو جنگ میں بھیجنے کی کوئی ضرورت نہیں تھی تاہم لبنان کے معاملے میں یہ واضح تھا کہ امریکہ وہاں خانہ جنگی نہیں چاہتا کیونکہ اس سے ایران اسرائیل جنگ کا خطرہ تھا اور پھر مجبوراً امریکہ کو بھی جنگ میں شامل ہونا پڑتا۔ امریکہ ایران جنگ کی صورت میں یہ بھی خطرہ تھا کہ ایران ایٹمی طاقت کے حصول کی کوشش تیز کردیتا، اس سے خطے میں ایٹمی ہتھیاروں کی دوڑ شروع ہو جاتی اور یہ واشنگٹن کے لیے بھیانک خواب جیسا تھا۔
واشنگٹن نہیں چاہتا کہ ایران ایٹمی طاقت بنے کیونکہ اس سے صرف خطے میں نہیں بلکہ عالمی سطح پر ایٹمی توازن بگڑ جائے گا۔ امریکہ کئی بار یہ کہہ چکا ہے وہ ایران کی جانب سے ایٹمی ہتھیاروں کا حصول قبول نہیں کرے گا۔ اگر امریکہ فوجی طاقت کے ذریعے ایران کی ایٹمی صلاحیت کا خاتمہ ممکن سمجھتا تو کب کا ایسا کر چکا ہوتا۔ اسرائیل اسی وجہ سے واشنگٹن کو ایران کی جوہری تنصیبات کو تباہ کرنے پر راضی کرنے میں ناکام رہا ہے۔ امریکہ نہیں چاہتا کہ اُسے اس کی مرضی کے بغیر کسی جنگ میں گھسیٹا جائے اور اس نے پچھلے دو ہفتوں سے اسرائیل کو روک رکھا ہے۔ اسی لیے اسرائیل جس نے یکم اکتوبر کے حملے کے بعد ایران کی جوہری اور تیل تنصیبات پر حملہ کرکے جواب دینے کی بات کی تھی، حال ہی میں کہا ہے کہ وہ صرف ایران کی فوجی تنصیبات کو نشانہ بنائے گا۔ بائیڈن انتظامیہ نے واضح کردیا ہے کہ اگر اسرائیل نے ایران پر حملہ کیا تو وہ جنگ میں شامل نہیں ہوگا۔
بائیڈن انتظامیہ کے حالیہ خط کو اسی تناظر میں سمجھنا چاہیے۔ واشنگٹن صدارتی انتخابات سے پہلے ایران کے خلاف اسرائیل کے ممکنہ ردعمل کے غیر متوقع نتائج کو محدود کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ صرف ایک ہی تھاڈ ڈیفنس سسٹم (فضائی دفاعی نظام) اسرائیل بھیجنے کا مطلب یہی ہے کہ امریکہ ایران سے بڑی جنگ کے لیے تیاری نہیں کر رہا۔ اسرائیل پر غزہ میں امداد کے لیے دباؤ ڈالنے کی اداکاری کرکے اور اسرائیل کو الیکشن سے پہلے کوئی بڑا حملہ کرنے سے روک کر بائیڈن انتظامیہ اُس انتخابی دباؤ کو کم کرنے کی کوشش کررہی ہے جو فلسطین کے حامیوں کے مظاہروں کی وجہ سے بڑھتا جارہاہے۔ یکم اکتوبر کے ایرانی حملے نسبتاً زیادہ کارگر تھے اور اسرائیل نے بظاہر یہ بات سمجھ لی ہے کہ وہ امریکی مدد اور حمایت کے بغیر کوئی بڑی جنگ نہیں لڑسکتا۔
بائیڈن کے دوبارہ الیکشن نہ لڑنے کی ایک وجہ مسئلہ فلسطین بھی ہے اور یہ سمجھنا مشکل نہیں کہ اس مسئلے کی وجہ سے کملا ہیرس کا صدارت کی کرسی پر بیٹھنے کا خواب پورا نہیں ہوسکے گا۔ بائیڈن انتظامیہ نہیں چاہتی کہ نیتن یاہو کی جانب سے ایران کے خلاف جنگ کی صورت میں کوئی اکتوبر سرپرائز ملے ، وہ ایران کو اشتعال بھی نہیں دلانا چاہتی کہ کہیں وہ ایٹمی طاقت کے حصول کی طرف قدم نہ بڑھا لے۔ یہ کہنا درست ہوگا کہ اصل ایشو غزہ میں مسلسل بگڑتا انسانی بحران نہیں بلکہ امریکی الیکشن ہیں۔