امریکا میں صدارتی الیکشن اور صدر بائیڈن کا کھیل: کیا وہ واقعی کملا ہیرس کی جیت چاہتے ہیں یا کچھ اور؟

07:4414/10/2024, Pazartesi
جنرل14/10/2024, Pazartesi
عبداللہ مُراد اوغلو

پبلک سروے کے مطابق 61 فیصد امریکی سمجھتے ہیں کہ بائیڈن انتظامیہ کو اسلحہ اور گولہ بارود اسرائیل کو ایکسپورٹ نہیں کرنے چاہیے۔ ڈیموکریٹک ووٹرز کی 77 فیصد آبادی کا بھی یہی خیال ہے۔ اس ڈیٹا سے یہ بات صاف ظاہر ہوتی ہے کہ امریکی سوسائٹی میں اسرائیل کی حمایت کم ہوتی جارہی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ لبرل یہودیوں میں زائنزم (صیہونیت) اور اسرائیل سے جذباتی لگاؤ بھی کم ہورہا ہے۔ امریکی یہودیوں کی نوجوان نسل خود کو زائنزم سے دور کر رہی ہے۔ اسرائیل اور اسرائیلی لابی کا سب سے بڑا خوف ہی جذباتی اور نظریاتی طور پر مقبولیت

خبروں کی فہرست

پبلک سروے کے مطابق 61 فیصد امریکی سمجھتے ہیں کہ بائیڈن انتظامیہ کو اسلحہ اور گولہ بارود اسرائیل کو ایکسپورٹ نہیں کرنے چاہیے۔ ڈیموکریٹک ووٹرز کی 77 فیصد آبادی کا بھی یہی خیال ہے۔ اس ڈیٹا سے یہ بات صاف ظاہر ہوتی ہے کہ امریکی سوسائٹی میں اسرائیل کی حمایت کم ہوتی جارہی ہے۔

اس کے ساتھ ساتھ لبرل یہودیوں میں زائنزم (صیہونیت) اور اسرائیل سے جذباتی لگاؤ بھی کم ہورہا ہے۔ امریکی یہودیوں کی نوجوان نسل خود کو زائنزم سے دور کر رہی ہے۔

اسرائیل اور اسرائیلی لابی کا سب سے بڑا خوف ہی جذباتی اور نظریاتی طور پر مقبولیت میں کمی کا خدشہ ہے۔ امریکا کی سفید فام ایونجیلسٹ کمیونٹی میں عیسائی زائنسٹ گروپ اسرائیل کا سب سے بڑا حامی ہے مگر یہاں بھی وہی مسئلہ ہے کہ بڑی عمر کے لوگوں کے مقابلے میں نوجوانوں میں یہ حمایت کم ہے۔ اس کے علاوہ سفید فام ایونجلیکل آبادی میں کمی کے باعث اسرائیل کی حمایت اور بھی کمزور ہوگئی ہے جواس کے لیے مزید خطرے کی بات ہے۔

کانگریس میں ڈیموکریٹ ارکان اور نوجوان ڈیموکریٹس میں بھی اسرائیل کی حمایت کے معاملے پر سوال اُٹھ رہے ہیں، اس تمام صورتحال میں ڈیموکریٹک پارٹی پر اپنی اسرائیل حمایت پالیسیوں کو بدلنے کیلئے دباؤ بڑھ رہا ہے۔

اس سے پہلے تک بائیڈن حکومت نے اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے آفیشل بیانات میں ’جنگ بندی‘ اور ’تناؤ میں کمی‘ جیسے الفاظ کا استعمال بھی محدود کردیا تھا۔ مگر ان کی پارٹی سے اندرونی دباؤ کے باعث بائیڈن کو یہ مؤقف تبدیل کرنا پڑا۔ اب بائیڈن نیا کھیل کھیل رہے ہیں کہ وہ بظاہر تو جنگ بندی کی حمایت کرتے ہیں مگر ساتھ ہی ساتھ سیز فائر کی کوششوں کے خلاف نیتن یاہو کو ہتھیاروں کی فراہمی بھی جاری رکھے ہوئے ہیں۔ بائیڈن نے نیتن یاہو کو حملے روکنے کے لیے کوئی وجہ بھی نہیں بتائی۔

اس کے علاوہ یونیورسٹیز میں احتجاج کرنے والی طلبہ تنظیمیں اور لیبر یونینز جو ڈیموکریٹس کی روایتی اتحادی ہیں وہ بھی اسرائیل کو اسلحہ کی فراہمی روکنے کا مطالبہ کررہی ہیں۔ اس کے باوجود بائیڈن انتظامیہ اسرائیل کی فوجی، سیاسی اور سفارتی حمایت کررہی ہے اور اس وجہ سے خطے میں قتل عام کا سلسلہ جاری ہے۔ لیبر یونینز اور ڈیموکریٹس کےدرمیان بڑھتا فاصلہ بھی ایک اہم پیش رفت ہے۔

لبنان پر اسرائیلی بمباری کے آغاز کے بعد ’یونائیٹڈ الیکٹریکل ورکرز یونین‘ نے ایک بیان میں اس بات کو اجاگر کیا تھا کہ کس طرح اسرائیل امریکا کے اربوں ڈالرز کے ہتھیار اور فوجی فنڈز لبنانی شہریوں کے قتل عام میں استعمال کررہا ہے۔ بیان میں بائیڈن سے مطالبہ کیا گیا تھا کہ اسرائیل کی فوجی امداد فوری طورپر بند کی جائے۔ ایک انٹرویو میں یونین لیڈر کارل روزن نے مطالبہ کیا تھا کہ اسرائیل کی غیر مشروط حمایت کی پالیسی ختم کرنے کے لیے انتظامیہ پر دباؤ ڈالاجائے۔ انہوں نے کہا تھا کہ ’کئی دہائیوں سے اسرائیل مڈل ایسٹ میں ہمارا پالتو شکاری کُتا بنا ہوا ہے اور اُس کے گلے میں پٹہ ڈالنا بھی ہماری ہی ذمہ داری ہے۔ اب تک ایسا نہ ہونے کی وجہ اندرونی سیاسی مسائل اور ہزاروں افراد کی موت سے ہونے والے ملٹری اور انڈسٹریل فوائد ہیں‘۔

ہر امریکی صدر کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ دوسری بار عہدہ کی مدت مکمل کرے اور بائیڈن نے دوبارہ الیکشن کے لیے نامزدگی بھی حاصل کرلی تھی مگر ان کی ذہنی اور جسمانی صلاحیت کے حوالے سے سوالات اُٹھنے کے بعد بائیڈن کو دوبارہ الیکشن لڑنے کا فیصلہ واپس لینا پڑا۔ انتخابی دوڑ سے باہر ہونے کے باعث اُن کے خواب چکنا چور ہوگئے اور شاید اسی لیے وہ کملا ہیرس کے صدارتی امیدوار بننے سے زیادہ خوش نہیں ہیں۔

اسرائیل کو ہتھیاروں کی فراہمی جاری رکھ کر، جنگ بندی کے لیے دباؤ نہ ڈال کر، نیتن یاہو کو لبنان پرحملے کے ذریعے جنگ پھیلانے کی اجازت دے کر بائیڈن کملا ہیرس کی پوزیشن کو کمزور بنا رہے ہیں۔ نیتن یاہو پر دباؤ ڈالنے سے بائیڈن کا گریز اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ شاید انہیں صدارتی الیکشن کے لیے کملا ہیرس کی جیت کی زیادہ فکر نہیں ، انہوں نے کملا ہیرس کی الیکشن مہم میں شرکت نہیں کی اور بظاہر کملا ہیرس نے اُن کی غیر حاضری کو زیادہ اہمیت نہیں دی۔

الیکشن کی نازک صورتحال کو دیکھتے ہوئے یہی کہا جاسکتا ہے کہ اسرائیل کو جنگ سے روکنا کملا ہیرس کو فائدہ پہنچائے گا۔ اس طرح کی کوئی ڈیولپمنٹ ’اکتوبر سرپرائز‘ کا کام دے سکتی ہے جس سے انتخابی نتائج کملا ہیرس کے حق میں ہوجائیں مگر نیتن یاہو کا جنگ کو پھیلانا اور تیل کی قیمتوں میں اضافے سے ٹرمپ کو فائدہ ہوگا۔ سوال یہ ہے کہ آخر بائیڈن اس صورتحال میں کملا ہیرس کی مدد کررہے ہیں یا نہیں؟



#امریکا
#صدارتی الیکشن
#مشرقی وسطیٰ
#اسرائیل
#غزہ