امریکہ کا اگلا صدر دنیا میں جاری بہت سے تنازعات میں فیصلہ کن کردار ادا کر سکتا ہے انہی میں سے ایک ہے غزہ اسرائیل جنگ جس میں گزشتہ ایک سال کے دوران ہزاروں لوگ قیمتی جانوں سے محروم ہوئے اورلاکھوں دربدر ہوگئے۔
اسرائیل کو ملٹری اور سفارتی مدد فراہم کرنے والے ملک امریکہ کے اگلے صدر کے لیے ووٹنگ کا فیصلہ کن مرحلہ 5 نومبر کوطے کیا جائے گا۔ یوں تو ووٹنگ میں اب چند ہی گھنٹے بچے ہیں لیکن ڈیموکریٹک امیدوار کملا ہیرس یا ریپبلیکن امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ میں سے کون ہوگا اگلے 4 سال کے لیے امریکی صدر فی الحال کچھ واضح نہیں۔ اس سے بھی اہم سوال یہ بنتا ہے کہ وائٹ ہاؤس کی چابیاں سنبھالنے والا اگلے امریکی صدر اس وقت دنیا کو درپیش غزہ اسرائیل جنگ کے چیلنجز سے کس طرح نمٹے گا؟
غزہ اور اسرائیل کے درمیان جاری شدید تنازعے میں ٹرمپ اور کملا دونوں نے ہی اسرائیل کے لیے غیر معمولی سپورٹ ظاہر کی ہے اسی لیے زیادہ تر فلسطینی اور عرب کمیونٹی دونوں ہی امیدواروں سے جنگ کے خاتمے کی امید نہیں رکھتی اور نہ ہی ان دونوں امیدواروں نے جنگ بندی کے لیے کوئی واضح روڈ میپ پیش کیا ہے پھر بھی ان کی جیت کا غزہ اسرائیل تنازعے میں کیا کردار ہوسکتا ہے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
ڈونلڈ ٹرمپ:
ٹرمپ کی اسرائیل کے لیے ہمدردیاں کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ ٹرمپ کھل کر حماس کی مذمت کرتے ہیں جس کے 7 اکتوبر 2023 کے اسرائیل پر حملے میں 1139 افراد ہلاک اور 251 یرغمال بنالیے گئے تھے۔ جب کہ اس حملے کو جواز بنا کر شروع کی جانے والی اسرائیل غزہ جنگ میں مرنے والے 43000 فلسطینیوں کے لیے ٹرمپ کے پاس ہمدردی کی کوئی گنجائش نہیں۔
جولائی میں اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو سے ایک ملاقات میں ٹرمپ نے زور دیا کہ وہ حماس پر فتح حاصل کریں۔ اگرچہ انہوں نے کہا کہ غزہ میں قتل عام رکنا چاہیے لیکن ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ ’نیتن یاہو بہتر جانتے ہیں انہیں کیا کرنا ہے۔‘
یہ بیانیہ ٹرمپ کی پچھلی صدراتی مدت کے اقدامات کے مطابق ہے یہ ٹرمپ ہی تھے جن کی حکومت نے یروشلم کو اسرائیل کا دالرالحکومت تسلیم کیا اور فلسطینیوں کے غم و غصے کو بڑھایا۔ انہوں نے اسرائیل اور عرب ممالک کے درمیان ابراہم اکارڈز کے مطابق ’نارمالائزیشن‘ ڈیلز بھی شروع کروائیں۔ اور انہوں نے ایران سے نیوکلیئر ڈیلز بھی کینسل کر دیں کیونکہ اسرائیل اس کا مخالف تھا۔
لیکن نیتن یاہو اور ٹرمپ کے درمیان 2020 میں اس وقت کچھ کشیدگی دیکھی گئی جب ٹرمپ نے ایک ’امن منصوبہ‘ تجویز کیا جس میں دو ریاستوں کا ایک سسٹم پیش کیا گیا جہاں ایسٹ یروشلم کو فلسطین کا دالرالحکومت تجویز کیا گیا تھا۔
فلسطینیوں نے اسرائیل کو ایک بڑا علاقہ دینے پر اس منصوبے کی مذمت کی۔ لیکن یہ منصوبہ اس وقت مکمل ناکام ہو گیا جب نیتن یاہو نے موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ویسٹ بینک کو اسرائیل میں شامل کر لیا جس سے ٹرمپ نے اتفاق نہیں کیا تھا۔
حالیہ الیکشن میں ٹرمپ اِس منصوبے کی بات کرتے رہے ہیں۔ اپنی الیکشن مہم کے آخری دنوں میں ٹرمپ نے ریاست مشی گن (جو ایک اہم سوئنگ اسٹیٹ بھی ہے) کے لبنانی اور عرب امریکی ووٹرز کو قائل کرنے کے لیے امن کے وعدے کیے ہیں۔
غزہ اور اسرائیل کا نام لیے بغیر ایک ایکس پوسٹ میں ٹرمپ نے لکھا کہ ’لبنان میں امن اور سلامتی کے ساتھ رہنا آپ کے دوستوں اور رشتےداروں کا حق ہے، جو صرف تب ہی ممکن ہے جب مڈل ایسٹ میں امن و سلامتی ہو۔‘
کملا ہیرس
موجودہ امریکی صدر جو بائیڈن کے مقابلے میں کملا ہیرس غزہ کے لوگوں پر غیر انسانی ظلم کے خلاف اور جنگ بندی اور قیدیوں کے تبادلے کی ڈیلز کی لیے آواز اٹھاتی رہی ہیں ۔
جولائی میں انہوں نے نیتن یاہو سے ایک ملاقات میں کہا کہ وہ غزہ کے حالات پر خاموش نہیں رہیں گی۔ ملاقات کے بعد میڈیا سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ ’اسرائیل کو اپنے دفاع کا حق حاصل ہے لیکن وہ کس طرح اپنا دفاع کرتا ہے یہ سوال اہم ہے۔ غزہ میں پچھلے 9 مہینوں میں جو کچھ ہوا وہ ہولناک ہے۔‘
ہیرس لبنان اسرائیل بارڈر پر امن کی بھی حامی ہیں۔ انہوں نے حزب اللہ کے لیڈر حسن نصراللہ کو ہلاک کرنے پر اسرائیل کی تعریف کی۔ جمعرات کو صدر بائیڈن کے مڈل ایسٹ کو آرڈینیٹر برٹ میک گرک اسرائیل پہنچے جہاں وہ حزب اللہ کے ساتھ جنگ بندی مزاکرات کی کوشش کر رہے ہیں۔ صدر بائیڈن کے سیکریٹری انتونی بلنکن 7 اکتوبر 2023 سے اب تک جنگ بندی کے لیے 11اسرائیل کے ساتھ ناکام مذاکرات کر چکے ہیں۔
لیکن اپنے بیانیے کے باوجود ہیرس نے اسرائیل غزہ جنگ کے خاتمے کے حوالے سے کوئی وعدہ نہیں کیا جس کو امریکہ کی عرب اور مسلم کمیونٹی نے نوٹ کیا ہے۔ ایک امریکی سوشیالوجسٹ ایمان عبدالہادی کا کہنا ہے کہ ’غزہ کے بچوں کے قتل عام کو روکنے کی کوئی واضح کمٹمنٹ کے بغیر ہمیں کملا ہیرس کی ہمدردی کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔‘
لیکن بائیڈن کی طرح ہیرس بھی کوئی دو ریاستی حل پیش کرنے میں ناکام رہی ہیں جس وجہ سے ان پر تنقید ہوتی رہی ہے۔ فلسطینی صدر محمود عباس ماضی میں بھی بایئڈن انتظامیہ پر دو ریاستی حل پیش کرنے میں ناکامی پر تنقید کرتے رہے ہیں۔