سپین میں طوفانی بارشوں کے بعد سیلابی صورتحال پیدا ہوگئی جس کے نتیجے میں 158 لوگ ہلاک اور درجنوں لاپتا ہوگئے۔
مقامی رپورٹس کے مطابق 29 اکتوبر کو سپین کے قصبے چیوا میں 8 گھنٹوں کے دوران ایک سال جتنی بارش ہوئی۔ طوفانی بارشوں کے بعد سیلابی پانی نے سب کچھ بہا دیا۔ متعدد پل اور عمارتیں تباہ ہوگئیں، لوگوں نے جان بچانے کے لیے جھتوں اور درختوں کا سہارا لیا۔ حکام کےمطابق سڑکوں اور گلیوں میں جو مناظر ہیں ان سے لگتا ہے کہ جیسے کوئی سونامی یا ہریکین آیا تھا۔ سنگین صورتحال کے باعث ملک کے وزیر اعظم پیڈرو سانچیز نے تین دن کے قومی سوگ کا اعلان کیا ہے۔
حالیہ سیلاب سے ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد 1970 کی دہائی کے بعد سے ملک میں سب سے زیادہ ہیں۔
اسپین کے ایمرجنسی ریسکیو یونٹس کے ایک ہزار سے زائد ورکرز مقامی حکام کے ساتھ امدادی کارروائیوں میں مصروف ہیں ۔ بڑی تعداد میں لوگوں کے لاپتہ ہونے کے سبب حکام کو خدشہ ہے کہ ہلاکتوں کی تعداد بڑھ سکتی ہے۔
اسپین کے کئی شہروں میں جہاں طوفانی بارش ہوئی وہاں ہزاروں لوگ بجلی اور پانی کی فراہمی سے محروم ہیں، بارش اور سیلاب کے باعث کئی سو لوگ گاڑیوں اور گھروں میں پانی جمع ہونے سے پھنس گئے ہیں ، سڑکوں پر جگہ جگہ تباہ حال گاڑیاں نظر آرہی ہیں اور مکانات بھی پانی سےبری طرح متاثر ہوئے ہیں۔ کئی مقامات پر درختوں کی شاخیں بھی گری ہوئی ہیں۔ ویلنشیا میں ٹرانسپورٹ سسٹم بھی بری طرح متاثر ہوا ہے۔
اس سیلاب کے بعد مقامی حکومت کو طوفانی بارش اور سیلابی صورتحال سے متعلق بروقت آگاہی نہ دینے کے باعث شدید تنقید کا سامنا ہے یعنی لوگ سیلاب میں سڑکوں میں پھنسے رہے اور کسی اونچی جگہ تلاش نہیں کر سکے۔
سپین کی عوام غصہ کا اظہار کررہی ہے کہ کس طرح ایک ترقی یافتہ یورپی ملک بہت سی کمیونٹیز کو وقت پر سیلاب کے خطرے سے آگاہ کرنے میں ناکام رہی۔ اس بارے میں سوالات اٹھائے گئے کہ کیا وجہ تھی کہ ڈیزاسٹر مینجمنٹ سروسز نے بہت دیر سے وارننگ جاری کی۔
سپین کے میڈیٹرینین ساحلی علاقوں میں خزاں کے موسم میں سمندری طوفان اور سیلاب معمول کی بات ہیں مگر اتنے بڑے پیمانے پر تباہی پہلے نہیں ہوئی۔