5 جنوری کو امریکی عوام صرف اپنا صدر ہی نہیں چنیں گے بلکہ ایوان نمائندگان اور سینیٹ کے ایک تہائی ارکان بھی منتخب کریں گے۔ موجودہ صورت حال میں دیکھا جائے تو ایوان میں ری پبلکنز کو معمولی برتری حاصل ہے جبکہ سینیٹ پر ڈیموکریٹس کا کنٹرول ہے۔توقعات تو یہی ہیں کہ ری پبلکنز ہاؤس پر اپنی معمولی اکثریت کو برقرار رکھ سکیں گے اور شاید سینیٹ کی دوڑ میں بھی اُن کی پوزیشن تھوڑی بہتر ہوسکتی ہے۔ ڈیموکریٹس کے لیے سیٹیں بچانے کا چیلنج ری پبلکنز کے مقابلے میں زیادہ بڑا ہے خصوصاً سینیٹ کی آٹھ سیِٹوں پر سخت مقابلہ متوقع
5 جنوری کو امریکی عوام صرف اپنا صدر ہی نہیں چنیں گے بلکہ ایوان نمائندگان اور سینیٹ کے ایک تہائی ارکان بھی منتخب کریں گے۔ موجودہ صورت حال میں دیکھا جائے تو ایوان میں ری پبلکنز کو معمولی برتری حاصل ہے جبکہ سینیٹ پر ڈیموکریٹس کا کنٹرول ہے۔توقعات تو یہی ہیں کہ ری پبلکنز ہاؤس پر اپنی معمولی اکثریت کو برقرار رکھ سکیں گے اور شاید سینیٹ کی دوڑ میں بھی اُن کی پوزیشن تھوڑی بہتر ہوسکتی ہے۔ ڈیموکریٹس کے لیے سیٹیں بچانے کا چیلنج ری پبلکنز کے مقابلے میں زیادہ بڑا ہے خصوصاً سینیٹ کی آٹھ سیِٹوں پر سخت مقابلہ متوقع ہے۔
ٹرمپ تیسری بار صدر کاانتخاب لڑ رہے ہیں، اور اگر وہ ہار گئے تو اگلی بار اُنہیں مقابلے میں حصہ لینے کا موقع نہیں ملے گا۔ 2016 سے ری پبلکن پارٹی پر ٹرمپ کا کنٹرول ہے۔ روایتی طورپر وہ صدر جو الیکشن ہار جائے عملی سیاست سے کنارہ کشی اختیار کرلیتا ہے مگر 2020 میں شکست کے بعد ٹرمپ نے ایسا نہیں کیا۔ ’سینٹرسٹ ری پبلکنز‘ اور ’نیوکونز‘ اس انتظار میں ہیں کہ کب پارٹی پر سے ٹرمپ کا اثر کمزور ہو، کچھ تو صرف اس لیے کملا ہیرس کے حامی ہوگئے ہیں کہ اُن کی جیت دراصل ٹرمپ کی ہار ہوگی۔ ٹرمپ کی شکست کی صورت میں ری پبلکن میں اندرونی لڑائی امکان ہے۔
کملا ہیرس کی شکست کی صورت میں ڈیموکریٹک محاذ پر بھی یہی صورتحال متوقع ہے۔ ابھی سے الزام تراشی کی لہر اٹھنا شروع ہوگئی ہے۔ کملا ہیرس کی نامزدگی پرائمری الیکشن کے ذریعے نہیں بلکہ جوبائیڈن کی وجہ سے ہوئی جنہوں نے پرائمری الیکشن جیتنے کے بعد اپنی دوڑ ادھوری چھوڑ دی تھی۔ نتیجتاً بائیڈن اور ان کی ٹیم نے کملا ہیرس کی نامزدگی کو پوری طرح قبول نہیں کیا اور اکثر ان کےساتھ غیر اہم نائب صدروالا رویہ اختیار کیا۔ سیاسی مبصرین بطور نائب صدر کملا ہیرس کی ناقص کارکردگی کے تاثر کو اس صورتحال کی ایک وجہ سمجھتے ہیں۔
اپنی پوری انتخابی مہم میں کملا ہیرس نے بائیڈن کے ساتھ سامنے آنے سے گریز کیا جبکہ بائیڈن جو اپنی الگ ریلیاں منعقد کرتے رہے، انہوں نے کئی غلطیاں کرکے انجانے میں ٹرمپ کو فائدہ پہنچایا۔ پہلے انہوں نے یہ بیان دیا کہ ٹرمپ کو ’لاک اَپ‘ یعنی قید کردینا چاہیے بعد میں وضاحت دی کہ مطلب تھا ’لاکڈ آؤٹ آف دی بیلٹس‘ یعنی انتخابی عمل سے باہر کردینا چاہیے۔ ٹرمپ کے حامیوں کو ’کچرا‘ کہنے کے بیان نے بھی کملا ہیرس کو سیاسی طور پر مشکل پوزیشن میں ڈال دیا۔ کملا ہیرس نے معاملات کو سنبھالنے کی بہت کوشش کی، وائٹ ہاؤس نے تو بائیڈن کے ریمارکس کو آفیشل ریکارڈ سے ہی مٹا کر پروٹوکولز کی خلاف ورزی کی۔
الیکشن سے جُڑا ایک اور معاملہ ٹرمپ کی ممکنہ شکست کے بعد سیاسی انتشار کا خطرہ ہے۔ تجزیہ کاروں نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ اگر ٹرمپ نے انتخابی نتائج کو قبول کرنے سےانکار کردیا تو اُس سے زیادہ بُرے واقعات پیش آسکتے ہیں جو 3 نومبر 2020 اور 6 جنوری 2021 کے درمیان پیش آئے تھے جب کیپٹل ہل پر دھاوا بول دیا گیا تھا۔
ٹرمپ اور اتحادی پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ کملا ہیرس کی کامیابی کی صورت میں انتخابی نتائج کو تسلیم نہیں کریں گے۔ امکان ہے کہ الیکشن کے بعد کانگریس میں ٹرمپ کے ہم خیال نمائندوں کی تعداد پہلے سے بڑھ جائے گی۔ کئی ری پبلکنز جنہوں نے 2020 کے انتخابی نتائج کو مانا تھا وہ پرائمریز کے مرحلے میں ٹرمپ کے حمایت یافتہ چیلنجرز سے شکست کھا گئے تھے اور اسی لیے ٹرمپ کی گرفت مزید مضبوط ہوگئی۔
یہ بات ری پبلکن پارٹی کے زیرِ انتظام ریاستی حکومتوں کے لیے بھی درست ہے جن کے پاس انتخابی نتائج کی توثیق کا اختیارہے۔ اگر کملا ہیرس جیت گئیں تو ممکن ہے کہ مزید ریاستیں ٹرمپ کے ساتھ مل جائیں جس سے الیکشن کے بعد سیاسی افراتفری مزید بڑھ سکتی ہے۔
امریکی ایف بی آئی اور ڈیپارٹمنٹ آف ہوم لینڈ سیکیورٹی نے الیکشن کے بعد کے مہینوں میں صورتحال بگڑنے کے حوالے سے وارننگز جاری کر رکھی ہیں۔ یہ ایک اشارہ ہے کہ شدت پسند گروپوں میں الیکشن نتائج کے حوالے سے خانہ جنگی (سول وار) کے بارے میں چرچا ہورہی ہے۔ ڈی ایچ ایس نے رواں برس ہی 2025 تھریٹ اسیسمنٹ رپورٹ جاری کی ہے اور کہا ہے کہ 2024 کے انتخابات شدت پسند گروپوں کو وجہ فراہم کرنے کا ذریعہ بن سکتے ہیں۔
بہت کم وقت رہ گیا ہے اور ٹرمپ اور ہیرس کا مقابلہ تقریباً برابر ہے۔ میں نے پچھلے آرٹیکل میں بھی لکھا تھا کہ انتخابی نتائج کا فیصلہ سات اہم ریاستیں کریں گی۔
امریکی معاشرے میں گہری سیاسی اور ثقافتی تقسیم کے پیش نظر 5نومبر کے انتخابات پچھلی بار کے برعکس شدید مقابلے بازی کے ماحول میں ہورہے ہیں۔ سیاسی گرما گرمی کی چنگاری بڑھ کر خانہ جنگی کی آگ بھڑکانے کا سبب بن سکتی ہے کیونکہ بظاہر دو مختلف نظریات رکھنے والے امریکا آپس میں ٹکرا رہے ہیں۔ اس مقابلے کا نتیجہ امریکا کے باقی دنیا سے تعلقات پر واضح طور پر اثر انداز ہونے جارہا ہے۔