آخر کچھ جماعتیں اپنی انتخابی علامت کے لیے ’گدھے‘ یا ’ہاتھی‘ کے نشان کیوں استعمال کرتی ہیں؟ امریکی انتخابات پر نظر ڈالتے ہوئے یہ سوال آپ کے ذہن میں بھی آتا ہوگا۔ اس سوال کا جواب جاننے کے لیے ہمیں ماضی میں جانا پڑے گا۔
اب سوال یہ ہے کہ کوئی آپ کو ’گدھا‘ کہے تو آپ کو کیسا لگے گا؟ یقیناً کچھ اچھا تو نہیں لگے گا۔ کچھ ایسا ہی 1828 کی انتخابی مہم کے دوران ہوا جب ڈیموکریٹک صدارتی امیدوار اینڈریو جیکسن کو ان کے مخالفین نے نیچا دکھانے کے لیے بے وقوف، احمق اور گدھا کہنا شروع کیا۔ اب اسے جیکسن کی عقل مندی کہیے یا سیاسی وژن کہ انہوں نے گدھے کے لفظ کو خوش دلی سے قبول کیا اور اپنی انتخابی مہم کے پوسٹرز میں گدھے کی تصویر کو بطور علامت استعمال کرنا شروع کر دیا۔
یہی نہیں انہوں نے مخالفین کو یہ کہہ کر خاموش کروادیا کہ گدھا ایک محنتی جانور ہے جو بغیر شکایت کیے سخت محنت کرتا ہے اور تھکتا بھی نہیں۔ عوام کو ان کا یہ وژن بہت پسند آیا اور وہ اپنے مخالف امیدوار جان کونیسی ایڈمز سے انتخابات جیت کر امریکہ کے پہلے ڈیموکریٹک صدر منتخب ہو گئے۔
اس کہانی میں مزید رنگ لگ بھگ 42 سالوں بعد ایک مشہور سیاسی کارٹونسٹ تھامس نیسٹ نے بھرے۔ 1870 میں تھامس نیسٹ کے سیاسی خاکے عوام میں بہت پسند کیے جاتے تھے۔ انہوں نے اپنے کارٹونز میں گدھے کو ایک سیاسی علامت کے طور پر استعمال کیا جسے آگے چل کر ڈیموکریٹس نے اپنی علامت اور پہچان کے طور پر اپنا لیا، یوں امریکی سیاست میں ’گدھے‘ کی باقاعدہ اینٹری ہوگئی۔
اب تصور کیجیے ایک جنگل ہے جہاں شیر کی کھال اوڑھے ایک گدھا کھڑا ہے اور جنگل کے جانور اس کے ڈر سے اِدھر اُدھر بھاگ رہے ہیں۔ لیکن ایک ہاتھی ڈٹ کر گدھے کے سامنے کھڑا ہے، ہاتھی پر لکھا ہے ’ریپبلیکن ووٹ‘۔
یہ منظر بھی تھامس نیسٹ کے ایک سیاسی کارٹون کا ہے جو 1874 میں ایک امریکی اخبار میں پبلش ہوا جس میں انہوں نے امریکہ میں جاری سول وار کو خاکے کی صورت میں پیش کیا اور تیسری مدت کے لیے صدر منتخب ہونے کے خواہشمند اس وقت کے صدر اولیس گرانٹ پر تنقید کی تھی۔
نیسٹ نے اپنے کارٹونز میں ری پبلیکن پارٹی کے لیے ہاتھی کی علامت استعمال کی جسے 1854 میں قائم ہونے والی ریپبلیکن پارٹی میں پزیرائی ملی یوں ہاتھی ریپبلیکن پارٹی کا علامتی نشان بن گیا۔
اس طرح کارٹونسٹ تھامس نیسٹ کو اس وقت امریکہ کی دونوں مقبول سیاسی جماعتوں کے انتخابی نشانات کے خالق ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔