’سپریم کورٹ کے ازخود اختیارات کو ختم کرنے ، چیف جسٹس آف پاکستان کی تعیناتی اور آئینی بینچ‘، 26ویں آئینی ترمیم کیا ہے؟

13:5421/10/2024, پیر
general.g21/10/2024, پیر
ویب ڈیسک
چھبیسویں ترمیم کو اس ترمیم کو آئینی پیکیج بھی کہا جاتا ہے
چھبیسویں ترمیم کو اس ترمیم کو آئینی پیکیج بھی کہا جاتا ہے

پچھلے مہینے سے حکمران اتحاد پارلیمنٹ میں ایک بل مںظور کرنے کی کوشش کررہی تھی جو کامیاب ہوگئی ہے، جس کا بنیادی مقصد عدلیہ سے متعلق تبدیلیاں لانا ہے۔

26 ویں آئینی ترمیمی بل، جسے آئینی پیکیج بھی کہا جاتا ہے، ایک ایسا قانون ہے جو سپریم کورٹ کے ازخود نوٹس کے اختیارات کو ختم کرنے، چیف جسٹس آف پاکستان کی مدتِ ملازمت کو تین سال تک محدود کرنے اور اگلے چیف جسٹس کی تعیناتی کا اختیار وزیر اعظم کو دینے کے لیے بنایا گیا ہے۔

یہ بل 20 اکتوبر کو سینیٹ سے دو تہائی اکثریت سے منظور کر لیا گیا اور آج 21 اکتوبر کو قومی اسمبلی سے بھی دو تہائی اکثریت کے ساتھ منظور کر لیا گیا ہے۔

جس کے بعد بل کو قانون کی شکل دینے کے لیے صدر آصف علی زرداری کے پاس بھیجا گیا۔ صدر کے دستخط کے بعد ترمیم بطور قانون نافذ ہو گئی ہے۔


اپوزیشن کو بل پر کیوں اعتراض تھا؟

اس بل پر اپوزیشن بالخصوص پی ٹی آئی کی جانب سے اٹھائے جانے والے اعتراضات میں سے ایک اعتراض وفاقی آئینی عدالت کا قیام تھا۔ مولانا فضل الرحمان نے وفاقی آئینی عدالت کے قیام کے بجائے آئینی بینچ قائم کرنے کی درخواست کی تھی اور حالیہ منظور کیے گئے مسودے میں یہ تبدیلی شامل ہے۔

پچھلی رات یعنی 20 اکتوبر کو پارلیمنٹ کی جانب سے منظور کیے جانے والے بل میں 22 ترامیم شامل تھیں جوکہ گزشتہ مہینے پیش کیے جانے والے مسودے میں 50 شقوں سے نصف سے بھی کم ہیں۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ اس بل کے منظور ہونے کے بعد یہ خدشہ اب بھی موجود ہے کہ حکمران اتحاد ’آئینی پیکج‘ میں اپنی پسند کے ججز کی تقرری کے لیے ترامیم کا غلط استعمال کرسکتے ہیں یا اپنے ’ہم خیال‘ جج کو چیف جسٹس کے عہدے پر فائز کرنے کی کوشش بھی کرسکتا ہے۔



26 ویں ترمیم کیا ہے؟


1۔ آرٹیکل 175اے میں سب سے زیادہ ترامیم کی گئی ہیں، جو سپریم کورٹ، ہائی کورٹس اور فیڈرل شریعت کورٹ میں ججوں کی تقرری سے متعلق ہے۔

آرٹیکل 175 اے کی شق 3 میں کی جانے والی ترمیم کے تحت سپریم کورٹ کے سب سے سینئر جج کو چیف جسٹس آف پاکستان کے طور پر منتخب کرنے کے لیے صدر کی سفارش پر نہیں ہوگی۔ یعنی اب چیف جسٹس کی تقرری اسپیشل پارلیمانی کمیٹی کی سفارش پر سپریم کورٹ کے تین سب سے سینئر ججوں میں سے ہوگی۔

پہلے تین نام پارلیمانی کمیٹی کو بھیجے جائیں گے اور 12 رکنی کمیٹی ان ناموں میں سے ایک کو بطور چیف جسٹس تعینات کرنے کی سفارش کرے گی۔ جس کے بعد وزیر اعظم صدر کو نوٹیفکیشن جاری کرنے کی سفارش کریں گے

2۔ شق نمبر 8 میں پہلے کہا گیا تھا کہ جوڈیشل کمیشن آف پاکستان سپریم کورٹ، ہائی کورٹ یا وفاقی شریعت کورٹ میں ججوں کی تقرری کے لیے کچھ نام آٹھ رکنی پارلیمانی کمیٹی کو بھیجے گی۔ یہ کمیٹی پھر ان ناموں کو وزیر اعظم کو بھیجے گی اور پھر صدر کو بھیجے جائے گی۔ لیکن شق میں ترمیم کے بعد جوڈیشل کمیشن آف پاکستان اب ججوں کے نام براہ راست وزیراعظم کو بھیجے گا، جو انہیں تقرری کے لیے صدر کے پاس بھیجے گا۔

3۔ آٹھ رکنی کمیٹی کے بارے میں پرانے قواعد یعنی شق 9، 10، 11، 12 اور 13 کو ختم کردیا گیا ہے۔

4۔ نئی شق 3 اے کے مطابق اسپیشل پارلیمانی کمیٹی کے 12 ارکان ہوں گے جن میں قومی اسمبلی کے 8 اراکین اور سینیٹ کے 4 اراکین ہوں گے۔

5۔ آرٹیکل 179 میں کی گئی ترمیم کے مطابق چیف جسٹس آف پاکستان کی مدت تین سال ہوگی، چیف جسٹس کے لیے عمر کی حد 65 سال ہوگی۔

6۔ کمیٹی کے اجلاس کے دوران قانون سازوں کو سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے ججوں کے رویے پر بات کرنے کی اجازت ہے، تاہم آرٹیکل 68 کے تحت عام طور پر ایسا ممکن نہیں تھا۔

7۔ اس بل میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اگر ہائی کورٹ کے کسی جج کی کارکردگی بہتر نہیں تو سپریم جوڈیشل کونسل اس جج کو اپنی کارکردگی بہتر بنانے کے لیے وقت دے گی اور اگر مقررہ مدت سے مذکورہ جج اپنی کارکردگی کو بہتر نہیں بناتا تو پھر یہ معاملہ سپریم جوڈیشل کونسل ہی دیکھے گی جبکہ کونسل ججز کی کارکردگی کو جانچنے کے لیے الگ سے بھی قواعد وضوابط تشکیل دے سکتی ہے۔

8۔ آئین کے آرٹیکل 203 ڈی میں ترمیم کی گئی ہے جس کے تحت کسی بھی ایپل کو متعلقہ اعلیٰ عدالت 12 ماہ کے اندر نمٹانے کی پابند ہے۔


سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے اختیارات

9۔ آرٹیکل 184 میں ایک اور اہم تبدیلی کی گئی ہے کہ سپریم کورٹ کے ازخود اختیارات کو ختم کردیا گیا ہے اور ترمیم کے بعد ’ازخود نوٹس کا اختیار آئینی بینچز کے پاس ہوگا‘۔

ترمیم کے مطابق ’سپریم کورٹ کوئی حکم جاری نہیں کرے گی، ہدایات نہیں دے گی، یا خود کوئی اعلان نہیں کرے گی یا ازخود کارروائی نہیں کرے گی۔‘ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے تحت قائم ہونے والی سپریم کورٹ کے ججز کی تین رکنی کمیٹی نوٹس لینے یا نہ لینے کے بارے میں فیصلہ کرے گی۔

10۔ اسی طرح آرٹیکل 199 میں نئی شق 1 اے شامل کی گئی جس کے تحت ہائی کورٹ کو بھی ازخود نوٹس یا احکامات یا ہدایات جاری کرنے کی اجازت نہیں ہوگی۔ ’ہائی کورٹ کسی بھی معاملے پر نہ کوئی از خود نوٹس لے سکتی ہے اور نہ کسی ادارے کو کوئی ہدایت دے سکتی ہے۔‘

11۔ آرٹیکل 186 اے میں تبدیلی کے بعد سپریم کورٹ کو اب یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ ہائی کورٹ کے کسی بھی کیس کو کسی دوسری ہائی کورٹ یا اپنے پاس منتقل کر سکتی ہے۔

12۔ آرٹیکل 185 کے تحت آئین سے متعلق کیسز آئینی بینچز کے دائرہ اختیار میں آئیں گے، آئینی بینچ کم سے کم 5 ججز پر مشتمل ہوگا، آئینی بینچز کے ججز کا تقرر تین سینیئر ترین ججز کی کمیٹی کرے گی، چیف جسٹس کا تقرر خصوصی پارلیمانی کمیٹی کی سفارش پر کیا جائے گا۔


سپریم کورٹ میں آئینی بینچز کی تشکیل

13۔ ایک نئے آرٹیکل 191 اے کے تحت سپریم کورٹ کا آئینی بینچ تشکیل دیا جائے گا، جوڈیشل کمیشن آئینی بینچز اور ججز کی تعداد کا تقرر کرے گا۔

اس آرٹیکل کی شق 1 میں کہا گیا ہے کہ ’سپریم کورٹ کا آئینی بنچ تشکیل دیا جائے گا، اس بینچ کے ججز جوڈیشل کمیشن آف پاکستان کی طرف سے نامزد ہوں گے۔ آئینی بینچز میں جہاں تک ممکن ہو تمام صوبوں سے برابر ججز تعینات کیے جائیں گے۔

14۔ آئینی بینچ کم سے کم 5 ججز پر مشتمل ہوگا، آئینی بینچز کے ججز کا تقرر تین سینیئر ترین ججز کی کمیٹی کرے گی، چیف جسٹس کا تقرر خصوصی پارلیمانی کمیٹی کی سفارش پر کیا جائے گا۔


ہائی کورٹس میں آئینی بینچز کی تشکیل

15۔ ہائی کورٹس میں آئینی بینچز کے قیام کے لیے ایک نیا آرٹیکل 202 اے شامل کیا جائے گا۔

16۔ اس آرٹیکل کی شق نمبر 1 میں کہا گیا ہے کہ ہر ہائی کورٹ میں آئینی بنچ ہو گا۔ ان بینچز میں کون سے جج ہوں گے اس کا انتخاب جوڈیشل کمیشن آف پاکستان کرے گا۔ نامزد ججوں میں سب سے سینئر جج آئینی بنچوں کا سربراہ ہوگا۔

17۔ شق 3 کے مطابق صرف ایک آئینی بنچ آرٹیکل 199 کی مخصوص شقوں کے تحت ہائی کورٹ کے اختیارات استعمال کر سکتا ہے۔ کسی بنچ کو ایسا کرنے کی اجازت نہیں ہے۔




#پاکستان
#آئین
#ترمیم
#چھبیسویں ترمیم