اب سے ایک برس پہلے اسی ہفتے میں ایک میٹنگ کے سلسلے میں انقرہ میں تھا۔ جب حماس نے 7 اکتوبرکوحملوں کا آغاز کیا تو فلسطین کا مسئلہ اجلاس کے ایجنڈے میں اہم حصہ بن گیا تھا۔ اسرائیل کی سیکیورٹی کی کمزوریوں پر بھی بحث ہوئی اور حماس کے حملے کی ٹائمنگ کے بارے میں بھی بہت بات ہوئی۔ اس بات پر سب متفق تھے کہ اسرائیل کا جواب اس حملے سے کئی گنا بڑا ہوگا۔ یہ بات بھی واضح تھی کہ اسرائیل اور حماس کی لڑائی اب ایک نئے مرحلے میں داخل ہونے والی ہے، اس بات پر بھی بحث ہورہی تھی کہ مسئلے کے سیاسی حل کے لیے کیا کرنا ہوگا۔
اب سے ایک برس پہلے اسی ہفتے میں ایک میٹنگ کے سلسلے میں انقرہ میں تھا۔ جب حماس نے 7 اکتوبرکوحملوں کا آغاز کیا تو فلسطین کا مسئلہ اجلاس کے ایجنڈے میں اہم حصہ بن گیا تھا۔ اسرائیل کی سیکیورٹی کی کمزوریوں پر بھی بحث ہوئی اور حماس کے حملے کی ٹائمنگ کے بارے میں بھی بہت بات ہوئی۔ اس بات پر سب متفق تھے کہ اسرائیل کا جواب اس حملے سے کئی گنا بڑا ہوگا۔ یہ بات بھی واضح تھی کہ اسرائیل اور حماس کی لڑائی اب ایک نئے مرحلے میں داخل ہونے والی ہے، اس بات پر بھی بحث ہورہی تھی کہ مسئلے کے سیاسی حل کے لیے کیا کرنا ہوگا۔ پیچھے مڑ کر دیکھیں تو ایک سال پہلے کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ اسرائیل غزہ کو رہنے کے قابل نہیں چھوڑے گا، تنازعے کو دیگر ملکوں تک پھیلائے گا اور خود کو ایک نہ ختم ہونے والی جنگ میں دھکیل دے گا۔
مسئلہ فلسطین ایک سال قبل
پچھلے سال 7 اکتوبر سے صرف چند دن پہلے تک ایسا لگتا تھا کہ مسئلہ فلسطین کے حل پر دنیا کی کوئی توجہ نہیں۔ ٹرمپ انتظامیہ کی سیاسی حمایت کے ساتھ اسرائیل نے ’ابراہم اکارڈ‘ کے ذریعے کئی عرب ملکوں سے تعلقات بہتر کرلیے تھے۔ بائیڈن انتظامیہ بھی اسرائیل کے سعودی عرب سے تعلقات معمول پر لانے کے لیے مذاکرات کررہی تھی ۔ اسرائیل کا مؤقف تھا کہ فلسطین کا مسئلہ بس اب ایک معمولی حل طلب معاملے کی حیثیت رکھتا ہے اور ان کا خیال تھا کہ سعودی عرب سے تعلقات قائم ہونے کے بعد یہ مسئلہ خود بخود ختم ہوجائے گا۔ اسرائیل نے امریکا اور کئی مغربی ملکوں سے یہ بات منوا لی تھی کہ فلسطینی ریاست کا قیام غیرحقیقی تھا۔
اُس دوران جب غزہ کا محاصرہ جاری تھا تو ویسٹ بینک میں نئی بستیاں تعمیر کی جارہی تھیں، اسرائیلی قبضہ مضبوط اور غزہ کا گھیرا مزید تنگ ہوتا رہا۔ لاکھوں لوگ اسرائیل کے رحم و کرم پر تھے۔ ترکیہ نے غزہ کے محاصرے اور نئی یہودی بستیوں کی تعمیر کے خلاف آواز اٹھائی۔ سفارتی ذرائع استعمال کرکے اسرائیلی صدر پر رمضان میں فلسطینیوں پر مظالم روکنے کے لیے دباؤ ڈالا، تشدد روکنے کی یہ کوششیں کامیاب بھی ہوئیں۔ کئی برس بعد ترکیہ نے احتیاط کے ساتھ اسرائیل سے سفارتی تعلقات بحال کیے مگر ساتھ ہی یروشلم کو ریڈ لائن قرار دیتے ہوئے کہا کہ تعلقات کے معمول پر آنے کا انحصار مسئلہ فلسطین کے حل پر ہے۔
دو ریاستی حل کے حصول اور مسئلہ فلسطین کے پُرامن حل میں ناکامی کا سب سے بڑا ذمہ دار امریکا ہے جو شاید یہ چاہتا ہے کہ اس مسئلہ کو مکمل طور پر بھُلا دیا جائے۔ بائیڈن انتظامیہ ایران کے ساتھ ایٹمی ڈیل تو کرنا چاہتی تھی مگر دباؤ ڈالنے پر تیار نہیں تھی۔ ان کا مقصد ایران کے ساتھ معاملات کواسی طرح لٹکائے رکھنا تھا اور باقی مڈل ایسٹ کو نظر انداز کرتے ہوئے ساری توجہ چین پر رکھنا تھا۔ بائیڈن کے نیشنل سیکیورٹی ایڈوائزر جیک سلیوان نے یوکرین پر روسی حملے کو سنہری موقع سمجھتے ہوئے مغرب کو ہم آواز بنا لیا۔ 7اکتوبر سے چند دن پہلے ایک آرٹیکل میں انہوں نے زور دے کر کہا کہ مڈل ایسٹ میں جتنا امن اب ہے پہلے کبھی نہیں رہا اور اس خود ساختہ امن کا کریڈٹ امریکی انتظامیہ کو دے دیا۔
نیتن یاہو کے لیے تاریخی موقع
جس سکون کا سلیوان ذکر کر رہے تھے دراصل وہ طوفان سے پہلے کی خاموشی تھی۔ حماس نے اسرائیل کے اس پروپیگنڈے کو جھوٹا ثابت کرنے کے لیے ایران کی مدد سے 7 اکتوبر کو حملہ کیا۔ توقعات سے زیادہ حماس کے شدید حملوں کو اندرونی سیاسی مسائل میں پھنسے نیتن یاہو نے ایک تاریخی موقع سمجھا۔ ان حملوں کو اسرائیل کا نائن الیون قرار دے کر نیتن یاہو نے امریکا کو ساتھ لیا اور ایک نہ ختم ہونے والی جنگ چھیڑ دی۔ اسرائیل کو حملے سے روکنے کے بجائے اُس کی بھرپور مدد کرتے ہوئے بائیڈن حکومت نے نیتن یاہو کا کام مزید آسان بنادیا۔
پچھلے ایک سال میں اسرائیلی حکومت نے بین الاقوامی عدالتوں میں نسل کشی کے الزامات عائد کیے جانے کی پرواہ کیے بغیر امریکی حمایت کے ساتھ مل کر نہ صرف غزہ کو تباہ کرکے رکھ دیا بلکہ فلسطینیوں کا بڑے پیمانے پر قتل عام کیا۔ نیتن یاہو نے اپنے سیاسی کیریئر کو بچانے اور امریکا کے لیے آپشنز کو محدود کرنے کے لیے نہ ختم ہونے والی جنگ کا دائرہ شام، لبنان اور ایران تک پھیلا دیا۔ اس مرحلے پر جب بائیڈن انتظامیہ نے صدارتی انتخابات سے پہلے اسرائیل کی غزہ کی حکمت عملی پر تنقید کرنا چاہی تو نیتن یاہو نے شام میں ایرانی قونصل خانے پر حملے کا حکم دیا۔
نیتن یاہو کے اِس اقدام سے اشارہ ملا کہ اصل مسئلہ غزہ نہیں بلکہ ایران سے جنگ ہے، اس کے نتیجے میں اسرائیل کو امریکی کانگریس سے اربوں ڈالر امداد بھی ملی اور شاباشی بھی۔ یونیورسٹیوں میں احتجاج سمیت امریکا بھر میں مظاہروں کے باوجود بائیڈن انتظامیہ نے اسرائیل کے ’دفاع کے حق‘ کی حمایت جاری رکھی۔
نیتن یاہوایک شاطر سیاست دان ہیں جو امریکہ کے اندرونی سیاسی معاملات سے اچھی طرح باخبر ہیں اوراسرائیلی لابی کی طاقت کو استعمال کرنے سے نہیں ہچکچاتے، اپنی لابی کی مدد سے وہ امریکی کانگریس میں اسرائیل کے خلاف اپوزیشن کے دباؤ کو توڑنے میں بھی کامیاب رہے۔
اس وقت امریکی انتخابات سے پہلے وہاں موجود سیاسی خلا کا فائدہ اٹھاتے ہوئے نیتن یاہو کی حکومت مڈل ایسٹ کو بڑی جنگ میں دھکیلنے کے لیے ایران پر بڑے حملے کی تیاریوں میں مصروف ہے۔ موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اسرائیل حزب اللہ کو بےاثر کرنے کی کوشش کررہا ہے اور ایران کا ایٹمی پروگرام ختم کرانے کے لیے امریکا پر دباؤ ڈال رہا ہے۔ بظاہر ایسا نظر آتا ہے کہ واشنگٹن اور تہران ایک دوسرے سے براہ راست لڑنا نہیں چاہتے اور نیتن یاہو دھمکیوں سے آگے نہیں بڑھ سکتے۔ تاہم گزشتہ سال سے جاری مستقل جنگ کی اسرائیلی حکمت عملی کو دیکھتے ہوئے اس خدشے کو رد نہیں کیا جا سکتا کہ ایران کے ساتھ طویل عرصے سے جاری علاقائی شیڈو وار اب ایک مکمل کھلی جنگ میں بدل جائے گی۔