حماس نے یحییٰ سنوار کی اسرائیلی حملے میں ہلاکت کی تصدیق کردی

12:1017/10/2024, Perşembe
جنرل20/10/2024, Pazar
ویب ڈیسک
اسرائیل نے اب تک یحیٰ سنوار کی ہلاکت کی تصدیق نہیں کی اور حماس کی جانب سے بھی کوئی بیان جاری نہیں ہوا۔
اسرائیل نے اب تک یحیٰ سنوار کی ہلاکت کی تصدیق نہیں کی اور حماس کی جانب سے بھی کوئی بیان جاری نہیں ہوا۔

فلسطین کی عسکری تنظیم حماس نے اپنے پولیٹیکل گروپ کے سربراہ یحییٰ سنوار کی ہلاکت کی تصدیق کردی۔

الجزیرہ نیوز کے مطابق غزہ میں حماس کے سربراہ خلیل حیا نے اپنی براہ راست نشر کی گئی تقریر میں کہا کہ ’ہماری آزادی اور خود مختاری کے لیے یحییٰ السنوار نے اپنی جان قربان کردی۔ وہ بہادری اور دلیری کے ساتھ اسرائیلی فوج کے سامنے آخری سانس تک ساتھ ڈٹے رہے یہاں تک کہ اپنی جان اللہ کی راہ میں قربان کردی۔‘

انہوں نے کہا کہ ’ یحییٰ السنوار کے مشن کو جاری رکھے گی اور مقصد حاصل کیے بغیر چین سے نہیں بیٹھیں گے۔ خلیل حیا نے السنوار کے قتل کا انتقام لینے کا وعدہ کرتے ہوئے کہا کہ کا اسرائیلی یرغمالیوں کو اُس وقت رہا نہیں کریں گے جب تک اسرائیل غزہ پر حملے بند نہیں کر دیتا اور اپنی افواج کو واپس نہیں بلوالیتا۔


اسرائیلی فوج کی یحییٰ سنوار کی ہلاکت کی تصدیق


اس سے پہلے اسرائیلی فوج نے غزہ میں فلسطین کی مزاحمتی تنظیم حماس کے نئے سربراہ یحییٰ سنوار کی ہلاکت کا دعویٰ کیا تھا۔

اسرائیلی فوج نے جمعرات کی رات کو بیان جاری کیا کہ یحییٰ سنوار کو بدھ کے روز جنوبی غزہ میں مارا گیا۔ لاش کی شناخت کا عمل مکمل کرنے کے بعد اس بات کی تصدیق کی جا سکتی ہے کہ یحییٰ سنوار کو ہلاک کر دیا گیا ہے۔

بیان میں یہ بھی کہا کہ ’گزشتہ ایک سال اور حالیہ ہفتوں میں اسرائیلی فوج اور آئی ایس اے (شن بیٹ، اسرائیل کی ڈومیسٹک سیکیورٹی سروس) کی طرف سے کئی کارروائیاں کی گئیں جس علاقے میں یحییٰ سنوار کو نشانہ بنایا گیا تھا۔ یہ کوششیں بالآخر اس کے خاتمے کا باعث بنیں۔ ‘

حماس نے اسرائیلی دعووں پر کوئی بیان جاری نہیں کیا۔ اسرائیل گزشتہ سال اکتوبر سے غزہ پر جنگ کر رہا ہے، جس میں 42 ہزار سے زائد فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں، جن میں اکثریت عام شہریوں کی ہے۔ یہ جنگ سات اکتوبر کو حماس کی طرف سے جنوبی اسرائیل پر حملوں کے بعد ہوا، جس میں 1,139 افراد مارے گئے۔

اسرائیلی فوج اور پولیس نے یحییٰ سنوار کی شناخت کی تصدیق کے لیے ڈی این اے کی جانچ کی۔ اسرائیلی فوج نے کہا کہ غزہ میں اس کی فورسز نے تین افراد کو ہلاک کیا تھا جس میں یحییٰ سنوار بھی شامل ہیں۔

وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو نے یحییٰ سنوار کے قتل پر خوشی کا اظہار کیا لیکن کہا کہ اس کا یہ مطلب نہیں کہ غزہ پر جنگ ختم ہو گئی ہے بلکہ یہ اس کے خاتمے کی شروعات ہے۔

7 اکتوبر 2023 کے حملوں کے دوران اسرائیل سے تقریباً 250 افراد کو یرغمال بنایا گیا تھا۔ اس میں سے تقریباً آدھے رہا ہو چکے ہیں، اور خیال کیا جاتا ہے کہ تقریباً 70 اب بھی غزہ میں قید ہیں۔



یحییٰ السنوار کون تھے؟


فلسطین کی مزاحمتی تنظیم حماس نے اسماعیل ہنیہ کی ہلاکت کے بعد یحییٰ السنوار کو سیاسی بیورو کا نیا سربراہ مقرر کیا گیا تھا۔

اکتوبر میں ہونے والے حملوں کے بعد سے یحییٰ سنوار کو میڈیا میں نہیں دیکھا گیا۔ امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے کہا تھا کہ سنوار غزہ میں زیرِ زمین سرنگوں میں چھپے ہوئے ہیں اور اس ڈر سے وہ کسی سے رابطہ نہیں کر رہے کہ کہیں ان کی لوکیشن کے بارے میں اسرائیل کو معلوم نہ ہو جائے۔

یحییٰ سنوار 1962 میں غزہ کے شہر خان یونس کے پناہ گزین کیمپ میں پیدا ہوئے۔ انہیں ’ابو ابراہیم‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔1980 کی دہائی کے آخر میں یحییٰ سنوار، جب ان کی عمر صرف پچیس سال تھی، نے حماس کی سیکیورٹی سروس کی بنیاد رکھی جسے مجد کہا جاتا ہے.



انہوں نے اپنی زندگی کا بڑا حصہ اسرائیلی جیل میں گزارا ہے۔ وہ سنہ 1988 سے 2011 تک 22 سال تک قید میں رہے۔ جیل میں رہتے ہوئے انہوں نے عبرانی زبان سیکھی اور اسرائیلی معاملات اور ملکی سیاست کے بارے میں معلومات حاصل کی۔

2011 میں سنوار کو اسرائیل نے ایک معاہدے کے بعد رہا کر دیا تھا جس میں 1028 فلسطینی اور اسرائیلی عرب قیدی رہا ہوئے تھے اور اس کے بدلے میں اکیلے اسرائیلی یرغمالی فوجی جیلاد شالیت کی رہائی ممکن ہوئی۔ جسے حماس نے پانچ سال سے زائد عرصے تک قید رکھا ہوا تھا۔

امریکا نے 61 سالہ یحییٰ سنوار کو ’انٹرنیشنل دہشت گردوں‘ کی بلیک لسٹ میں شامل کیا ہے۔

الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق یحییٰ سنوار نے اسرائیل پر فلسطینیوں کو قتل کرنے کا الزام عائد کیا۔ یحییٰ سنوار نے کہا کہ ’کیا دنیا ہم سے یہ توقع رکھتی ہے کہ ہمیں مارا جارہا ہو اور پھر بھی ہم اچھا سلوک کریں، ہمارے لوگوں کو ذبح کیا جارہا ہو اور ہم شور بھی نہ مچائیں؟‘





#یحیٰ سنوار
#اسرائیل
#حماس اسرائیل جنگ
#فلسطین
#مشرقی وسطیٰ