پاکستان کے آئین میں 26 ویں ترمیم کی منظوری اور پھر اسے قانون کی شکل دینے کے بعد اس کا پاکستان میں عدلیہ کی آزادی کتنا اثر پڑے گا؟ اس پر وکلا برادری نے تشویش کا اظہار کیا ہے۔
26 ویں آئینی ترمیمی بل، جسے آئینی پیکیج بھی کہا جاتا ہے، ایک ایسا قانون ہے جو سپریم کورٹ کے ازخود نوٹس کے اختیارات کو ختم کرنے، چیف جسٹس آف پاکستان کی مدتِ ملازمت کو تین سال تک محدود کرنے اور اگلے چیف جسٹس کی تعیناتی کا اختیار وزیر اعظم کو دینے کے لیے بنایا گیا ہے۔
یہ بل 20 اکتوبر کو سینیٹ سے دو تہائی اکثریت سے منظور کر لیا گیا اور آج 21 اکتوبر کو قومی اسمبلی سے بھی دو تہائی اکثریت کے ساتھ منظور کر لیا گیا۔
جس کے بعد بل کو قانون کی شکل دینے کے لیے صدر آصف علی زرداری کے پاس بھیجا گیا۔ صدر کے دستخط کے بعد ترمیم بطور قانون نافذ ہو گئی ہے۔
’عدلیہ کی آزادی کے لیے سب سے بڑا دھچکا‘
اس بل پر بیرسٹر اسد رحیم نے ڈان کو بتایا کہ ’26ویں ترمیم 30 سالوں میں عدلیہ کی آزادی پر سب سے بڑا دھچکا ہے، تین ناموں میں سے ایک کو چیف جسٹس آف پاکستان کو منتخب کرنے کا عمل ’گیم آف تھرونس‘ کی صورت حال پیدا کرے گا، جس سے عدلیہ کے نظام کو نقصان پہنچے گا۔
’ترمیم کے بعد سپریم کورٹ محض ایک نام کی عدالت رہ جائے گی‘
وکیل معیز جعفری نے کہا کہ ’اس ترمیم کے بعد سپریم کورٹ محض ایک نام کی عدالت رہ جائے گی۔ ایک ایسی حکومت جس کے پاس ناجائز مینڈیٹ ہے سب کو معلوم ہے کہ یہ لوگ کیا چاہتے ہیں، جب تک انصاف پر مبنی فیصلے نہیں ہوتے، آئین کو نقصان اٹھانا پڑے گا۔‘
’آزاد عدلیہ پر کنٹرول کرنا چاہتے ہیں‘
وکیل ردا حسین نے کہا کہ ’ارادے صاف واضح ہیں کہ یہ لوگ ایک آزاد عدلیہ پر کنٹرول کرنا چاہتے ہیں، حکومت چیف جسٹس آف پاکستان کا تقرر نہیں کرسکتی جہاں ان کے اپنے کیسز بھی زیر سماعت ہوں۔‘
وہ کہتی ہیں کہ ’عدلیہ کی آزادی پر حملہ بنیادی حقوق پر حملہ ہے۔ جو عدلیہ خود مختار نہیں ہے وہ تعصب یا جانبداری کے بغیر انصاف نہیں دے سکتی۔ اس سے تمام شہری متاثر ہوں گے‘۔