’صرف 10 سال کا تھا جب اپنی جان لینے کا سوچا‘،خودکشی سے بچاوٴ کا عالمی دن، ڈپریشن کو لوگ بُرا کیوں سمجھتے ہیں؟

اقرا حسین
08:4810/09/2024, Salı
general.g3/10/2024, Perşembe
رپورٹر
ہر سال 10 ستمبر کو خودکشی سے بچاوٴ کا عالمی دن منایا جاتا ہے
ہر سال 10 ستمبر کو خودکشی سے بچاوٴ کا عالمی دن منایا جاتا ہے

’میری عمر قریب 10 سال تھی جب میں نے سوچا کہ مجھے مرجانا چاہیے. میں ڈر گیا تھا۔ میں نے سوچا کہ بڑے ہوکر میں کچھ نہیں بن پاوٴں گا۔‘

یہ الفاظ ایک ایسے نوجوان لڑکے کے ہیں جن کی عمر اب قریب 30 برس ہیں۔ ہر سال 10 ستمبر کو خودکشی سے بچاوٴ کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ پاکستان سمیت دنیا بھر میں یہ ایک صحت کا عالمی مسئلہ بن چکا ہے جس کی وجہ سے دنیا بھر میں ہر سال قریب
آٹھ لاکھ
لوگوں کی موت ہوتی ہے۔ یہ 15 سے 19 سال کی عمر کے نوجوانوں میں
تیسری
اور 15 سے 29 سال کی عمر کے لوگوں میں
موت کی دوسری بڑی وجہ ہے
۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ 90 فیصد خودکشیاں کم اور درمیانی آمدنی والے ممالک میں ہوتی ہیں۔
پاکستان میں
10.37 فیصد
آبادی 15 سے 19 سال کی عمر کے درمیان لوگوں کی ہے لیکن رجسٹریشن کا نظام نہ ہونے کی وجہ سے خودکشیوں کا کوئی سرکاری ریکارڈ موجود ہی نہیں ہے۔
تاہم عالمی ادارہ صحت کے ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں ہر سال
ایک لاکھ 30 ہزار سے 3 لاکھ
لوگ خودکشی کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور
13 ہزار سے 15 ہزار
لوگ خودکشی سے مر جاتے ہیں۔
دماغی صحت کے ماہرین کہتے ہیں کہ ملک میں خودکشی اب نوجوانوں میں
موت کی چوتھی بڑی وجہ ہے۔

اسلام آباد کے ’معروف انٹرنیشنل ہسپتال‘ کی سائیکوتھیراپسٹ اور سائیکالجسٹ ڈاکٹر زوبیہ زبیر نے ینی شفق کو بتایا کہ ’تعلیمی دباوٴ، سوشل میڈیا کا بہت زیادہ استعمال، خاندانی تنازعات، معاشی مواقع کی کمی، سوسائٹی کا پریشر، رشتوں کے مسائل، فیملی کی سپورٹ نہ ملنا، جاب نہ ملنے کی ٹینشن، جنسی شناخت کے مسائل کی وجہ سے نوجوانون میں ذہنی دباوٴ کا رجحان بڑھ رہا ہے‘۔

ہم نے چند اُن لوگوں سے بات کی جو ڈپریشن سے گزر رہے ہیں یا جنہوں نے خودکشی کرنے کا سوچا یا اس کی کوشش کی ہے۔

ایک شخص نے ہمیں بتایا کہ ’میرے کزن نے پچھلے سال پھانسی لگا کر خودکشی کر لی تھی۔ اسے ایک مولانا نے جنسی طور پر ہراساں کیا تھا۔ اس کے گھر والوں نے کبھی پولیس سے رابطہ نہیں کیا۔‘

قریب بیس سالہ لڑکی نے ہمیں بتایا کہ ’میں نے تین بار خودکشی کی کوشش کی۔ بچپن لوگ مجھے گالیاں دیتے، میرے والد مجھے مارتے تھے۔ میں صرف 16 سال کی تھی جب انہوں نے مجھے چھوڑ دیا تھا۔ لوگ مجھ پر ہنستے تھے‘۔



’صرف 10 سال کا تھا جب خودکشی کرنے کا سوچا‘


قریب 30 سالہ نوجوان سعد (فرضی نام) نے بچپن میں خودکشی کی کوشش کی تھی اور ذہنی دباوٴ کا سامنا کر چکے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ ’میں نے جب خود کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی تو اس وقت میری عمر 10 سے 12سال کے درمیان تھی اور چھٹی جماعت میں پڑھتا تھا۔ میں بہت پریشان رہتا تھا کیونکہ میرے ارد گرد لوگوں کے پاس زندگی کی ساری آسائشیں تھیں لیکن ہمارے پاس نہیں تھیں۔ میں حالات بہتر ہونے کا انتظار کر کے تھک گیا تھا‘۔

سعد کہتے ہیں کہ ’میری خودکشی کا تعلق میری فیملی یا دوست نہیں تھے بلکہ حالات تھے۔ یہاں تک کہ آج تک میری فیملی اور میرے بہت سے دوستوں کو میری خودکشی کی کوشش کے بارے میں نہیں معلوم ہے‘۔

وہ بتاتے ہیں کہ ’خودکشی کے خیالات اس وقت آتے ہیں جب آپ کو لگتا ہے کہ آپ کے ہاتھ میں اب کچھ نہیں رہا۔ زندگی کے حالات کبھی نہیں بدلیں گے اور جب آپ امید کھو دیتے ہیں۔‘

’میں خوفزدہ تھا۔ میں نے سوچا کہ جب میں بڑا ہو جاؤں گا تو میں کچھ حاصل نہیں کر پاؤں گا‘۔ سعد نے اپنے آپ کو نقصان کیسے پہنچایا ؟ اس سوال پر وہ بتاتے ہیں کہ ’یہ آپ کو شاید ایک مزاق لگے لیکن میں نے شیمپو کی بوتل پی لی تھی۔ کیونکہ میں ایک بچہ تھا اور میرے دماغ میں اس وقت جو آیا وہی کیا۔ زیادہ تر مرد حضرات یہ قبول ہی نہیں کرپاتے کہ انہیں مدد کی ضرورت ہے۔ لوگوں سمجھتے ہیں کہ اگر ہم تھیراپسٹ یا سائیکالجسٹ کی مدد لیں گے تو لوگ ہمیں ذہنی مریض یا پاگل کہیں گے‘۔

سعد کہتے ہیں کہ ’میں دوبارہ خودکشی کی کوشش نہیں کرنا چاہوں گا۔ اب میں کوشش کرتا ہوں کہ دوسروں کے سامنے اپنی کمزویوں کو چھپاوٴں۔‘


’ڈپریشن کو لوگ مزاق سمجھتے ہیں، ہمیں پاگل کہتے ہیں‘


اسی طرح قریب 25 سالہ نوجوان احمد نے بھی خودکشی کرنے کا سوچا تھا۔ جب ہم نے ان سے رابطہ کیا تو وہ اپنی ذہنی صحت کے حوالے سے بتاتے ہیں کہ ’خودکشی کی سوچ جو ہر وقت میرے ذہن میں رہتی ہے لیکن جب حد سے زیادہ اکیلا پن محسوس ہو تو ایسا لگتا ہے کہ سب کچھ ختم کردینا ہی آسان حل ہے۔‘

وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ ’ذہنی صحت یا ڈپریشن کو لوگ سنجیدہ نہیں لیتے، دوستوں کے ساتھ کچھ شئیر کرو تو وہ مزاق اڑاتے ہیں۔ کسی کو اپنی تکلیف بتاوٴں تو لوگ دھیان نہیں دیتے۔‘



’ڈپریشن کی وجہ سے نظر کمزور ہوگئی، ماہواری نہیں رُک رہی تھی‘


اس حوالے سے جب ہم نے قریب 30 سالہ حمیدہ (فرضی نام) سے بات کی تو انہوں نے بتایا کہ ’میرے خیال میں زیادہ تر لڑکیوں کے رشتوں کے مسئلے ہوتے ہیں۔ میری زندگی میں ایسے سیاہ بادل چھا گئے جس سے میں ابھی تک نہیں نکل پا رہی۔‘

انہوں نے بتایا کہ ’اپنی ذہنی حالت کے بارے میں جب لوگوں کو بتاتی ہوں تو ان کا صرف ایک جواب ہوتا ہے کہ ’move on‘، لوگ ہماری بات سننے کے بجائے الٹا مزاق اڑاتے ہیں۔ کوئی ہمیں سمجھتا ہی نہیں ہے جس کی وجہ سے میں زندگی سے مایوس ہوگئی اور آہستہ آہستہ ڈپریشن کی مریض بن گئی۔‘

انہوں نے بتایا کہ ’ڈپریشن کی وجہ سے میری عام زندگی پر بہت زیادہ اثر پڑا۔ دفتر میں کام کرنے کا دل نہیں چاہتا بہت زیادہ چڑچڑی ہوگئی تھی۔‘

جب ہم نے ان سے سوال پوچھا کہ ڈپریشن کی وجہ سے ان کی صحت پر کوئی اثر پڑا تو حمیدہ نے بتایا کہ ’ان کا 4 کلو وزن کم ہوگیا ہے۔ رو رو کر میری آنکھیں سُرخ ہوگئیں اور نظر کمزور ہوگئی۔ میں اتنا ڈپریشن اور انزائٹی میں چلی گئی کہ پورا ایک مہینے تک ماہواری نہیں رُک رہی تھی‘۔


لوگ آخر خودکشی کیوں کررہے ہیں؟


ڈاکٹر زوبیہ نے بتایا کہ ’جب انسان کو یہ احساس ہو کہ اس کی مدد کوئی نہیں کرسکتا تو وہ ناامید ہوجاتا ہے اور ناامیدی خودکشی کی طرف لے جاتی ہے‘۔

وہ بتاتی ہیں کہ معاشرے میں ڈپریشن اور ذہنی صحت کو ایسا دیکھا جاتا ہے کہ اس نے کوئی جرم کردیا ہے۔ ہمیں سمجھنا چاہیے کہ لوگ ایسی حالت کا سامنا کیوں کررہے ہیں۔ جب تک آگاہی نہیں پھیلائیں گے اور اسے taboo سمجھیں گے خودکشی کی شرح بڑھتی جائے گی۔


ذہنی دباوٴ کا مقابلہ کیسے کیا جائے؟


ڈاکٹر زوبیہ نے والدین کو مشورہ دیا کہ وہ اپنے بچوں کے ساتھ ذہنی صحت کے حوالے سے کھل کر بات کریں۔ ’میری کلینک میں ایک بچہ آیا، اس کی عمر 15 برس کے قریب تھی۔ میں نے اس سے کہا کہ مجھے تم پر فخر ہے کہ تم میرے پاس آسکے ہو۔ کیونکہ سائیکالجسٹ کے پاس آنا ہی بڑی بات ہے۔ وہ کتنے لوگوں کا سامنا کرکے ہمارے پاس آتے ہیں‘۔

انہوں نے کہا کہ ’جب کوئی ڈپریشن سے گزر رہا ہوتا ہے تو اسے مدد کی ضرورت ہوتی ہے۔ ہمارے معاشرے میں کسی سے مدد لینا ہی بہت مشکل کام ہے۔ ذہنی مسائل کے حوالے سے معاشرے میں آگاہی پیدا کرنے کی ضرورت ہے لوگوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ یہ صرف ایک ذہنی کیفیت ہے۔‘








#سحت
#خودکشی
#عالمی دن
#ذہنی صحت
#ڈپریشن