سونے کی بڑھتی ہوئی قیمتوں اور تیزاب تک آسان رسائی کی وجہ سے یہ کاروبار دوبارہ بحال ہورہا ہے۔
افغانستان کے شہر اسپن بولدک میں ایک ورکشاپ میں کچھ لوگ فرش پر بیٹھے تھے۔ ایسا لگ رہا تھا کہ وہ پرانے الیکٹرونکس کو توڑ کر اس میں سے سونا تلاش کررہے تھے۔
یہ ایک ایسا کاروبار ہے جس سے پیسہ کما سکتے ہیں لیکن یہ کاروبار زیادہ دیر تک نہیں چلتا کیونکہ نئی الیکٹرانکس سستی دھاتوں سے بنائی جا رہی ہیں۔ اس کام سے صحت کو بھی نقصان پہنچ سکتا ہے۔
البتہ سونے کی بڑھتی ہوئی قیمتوں اور تیزاب تک آسان رسائی کی وجہ سے یہ کاروبار دوبارہ بحال ہورہا ہے۔
دستانے یا ماسک پہنے بغیر یہ لوگ پرانے ٹیلی ویژن، کمپیوٹر یا موبائل فونز کو توڑنے کے لیے پلاس یا ہاتھوں کا استعمال کرتے ہیں۔ یہ الیکٹرونکس کا سامان جاپان، ہانگ کانگ، یا دبئی جیسے ممالک سے کچرے کے ڈھیر میں یہاں لایا جاتا ہے۔
اس ورکشاپ میں ایک ورکر 51 سالہ سید ولی آغا بتاتے ہیں کہ ’اس کام میں بہت وقت لگتا ہے کیونکہ ہمارے پاس زیادہ سامان نہیں ہے اور یہ کام بہت تھکا دینے والا ہے‘۔
سونا سرکٹ بورڈ سے نکالا جاتا ہے۔ اس کے بعد اسے ایک ورکر کو دیا جاتا ہے جو ایک پیالے میں اس کی تھوڑی سی مقدار جمع کرتا ہے جبکہ دوسرا ورکر گولڈ کو صاف کرنے کے لیے تیزاب کا استعمال کرتا ہے۔
اے ایف پی سے بات کرنے والے ورکشاپ میں کام کرنے والے ورکرز کے مطابق گولڈ کی ری سائیکلنگ کی تجارت 2021 میں طالبان کے اقتدار سنبھالنے کے بعد دوبارہ شروع ہوئی کیونکہ قیمتی دھات کو الگ کرنے کے لیے تیزاب بھی باآسانی ملنے لگا تھا۔
سید علی آغا کہتے ہیں کہ ’ایک مہینے میں ہم پرانے الیکٹرونکس سے 150 گرام سونا نکالتے ہیں۔ اور 5 ہزار 600 افغانیوں میں کو ایک ایک گرام سونا تقریباً 79 ڈالر میں فروخت کرتے ہیں۔‘
اس کا مطلب ہے کہ 20 ورکرز میں سے ہر ایک ماہانہ تقریباً 166 ڈالر کماتا ہے لیکن اس کام کے ساتھ صحت کو بھی کافی نقصان پہنچتا ہے۔
ترقی یافتہ ممالک میں یہی کام جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کرکے محفوظ طریقے سے کیا جاتا ہے۔
اس ورکشاپ کے قریب ہی ایک اور دکان تھی جہاں تقریباً 20 لوگ کام کرتے تھے۔ وہ ایک گرام سونے کے لیے 10 ٹیلی ویژن کو توڑتے اور ان کے آلات کو الگ الگ کرتے تھے۔
28 سالہ رحمت اللہ کہتے ہیں کہ ’یہ اچھا کام ہے، تنخواہ بھی اچھی مل جاتی ہے لیکن اس کا کوئی مستقبل نہیں ہے۔ ‘
الیکٹرونکس سے سونا نکالنے کے بعد اسے قندھار شہر کی ایک جیولری مارکیٹ میں لے جایا جاتا ہے جو کہ 100 کلومیٹر دور ہے۔ اس مارکیٹ میں ایک کثیر منزلہ عمارت ہے جس میں کئی ورکشاپس اور اسٹورز ہیں۔ وہاں ہماری ملاقات 34 سالہ نوجوان محمد یاسین سے ہوئی جو نیلی روشنی سے سونے کو پگھلا رہے تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’یہ بہت خاص اور اعلیٰ معیار کا 24 قیراط سونا ہے۔‘
لیکن ان کا کہنا ہے کہ اسپن بولدک سے مارکیٹ میں اب کم سونا آرہا ہے، ہر ہفتے صرف 30 سے 40 گرام تک سونا آتا ہے۔
وہ بتاتے ہیں کہ ’جاپانی الیکٹرونکس میں سونا ہوتا ہے لیکن چینی الیکٹرونکس میں نہیں ہوتا۔ جاپانی الیکٹرونکس ہر روز کم ہوتی جارہی ہے جبکہ چینی الیکٹرونکس بہت عام ہورہی ہے‘۔
انہوں نے پیش گوئی کی کہ ’ایک دن سونے کی ری سائیکلنگ بھی ختم ہوجائے گی کیونکہ بڑھتی ہوئی سونے کی قیمتوں کی وجہ سے ایکٹرونکس میں سونا دن بدن کم ہوتا جارہا ہے‘۔
اگرچہ افغانستان دنیا کے سب سے غریب ممالک میں سے ایک ہے، لیکن یہاں سونے کی خرید اور فروخت کا کاروبار بہت زیادہ عام ہے۔
افغانستان میں شادیوں کے موقع پر دلہنوں کو اکثر سونے کی چوڑیوں، ہار، انگوٹھیوں سے سجایا جاتا ہے۔ بعض اوقات کچھ فیملیز سونا خریدنے کے لیے سالوں تک قرضوں کے بوجھ تلے دبے ہوتے ہیں۔
اس دوران ہماری ملاقات 36 سالہ جیولر سے ہوئی جو ایک منگنی کی تقریب کے لیے سونے کے بنے تاج پر کام کررہے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ ’جتنی زیادہ شادیاں ہوں گی یہ کاروبار اتنا زیادہ چلے گا‘۔
جیولرز ایسوسی ایشن کے نائب صدر احمد شیکب مشفیق بتاتے ہیں کہ ’ان کے پاس دو طرح کے گاہک آتے ہیں، ایک وہ جو شہر سے تعلق رکھتے ہیں وہ ڈیزائن والی اور فینسی جیولری پسند کرتے ہیں اور دوسرے وہ گاہک جو دیہاتی علاقوں سے تعلق رکھتے ہیں وہ سادہ ڈیزائن کی جیولری پسند کرتے ہیں۔
انہوں کہا کہ ’زیورات کا ہونا ایک طرح سے فائدہ مند بھی ہے کیونکہ مشکل وقت میں اگر پیسوں کی ضرورت ہو تو اسے سونا بیچ سکتے ہیں۔‘