پچھلے ایک مہینے سے پاکستان کے مختلف حصوں میں فری لانسرز اور انفارمیشن ٹیکنالوجی (آئی ٹی) میں کام کرنے والے لوگوں کو سست انٹرنیٹ کا سامنا ہے جبکہ شہریوں کو واٹس ایپ پر وائس نوٹس اور تصاویر ڈاوٴن لوڈ کرنے میں دشواری ہورہی ہے۔
آئی ٹی ماہرین کہتے ہیں کہ حکومت ان مسائل کے پیچھے اصل وجوہات پر توجہ دینے کے بجائے معاملے کو ٹال رہی ہے۔ واضح جوابات دینے کے بجائے وہ انٹرنیٹ کی سست رفتار کو وی پی این (ورچوئل پرائیویٹ نیٹ ورکس) یا سب میرین کیبلزکی خرابی جیسی وجوہات بتارہی ہے جو شاید اصل وجہ نہ ہو۔
کیوں کہ ماہرین کے مطابق سب میرین کیبلز میں خرابی سے پورا انٹرنیٹ متاثر ہوتا ہے، صرف کچھ ایپلی کیشن میں خلل آنا سمجھ سے باہر ہے۔
پاکستان فری لانس ایسوسی ایشن کے صدر طفیل احمد کہتے ہیں کہ آئے روز حکومت کی جانب سے بدلتے بیانات سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت اور پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی ملک میں انٹرنیٹ کے انفراسٹرکچر کے بارے میں بالکل واضح نہیں ہیں۔ یہ پہلی بار نہیں کہ پاکستان میں انٹرنیٹ بند یا اس کی رفتار سست کی گئی ہو۔ ماضی میں بھی ایسا کئی بار ہوچکا ہے اس لیے حکام کے لیے ضروری ہے کہ وہ عوام کو اس کی اصل وجہ بتائیں۔
حکومت فی الحال انٹرنیٹ پر مواد کو بلاک یا فلٹر کرنے کے لیے کیا کررہی ہے؟
انٹرنیٹ میں خرابی سے متعلق اب تک 4 وجوہات سامنے آچکی ہیں۔ پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) نے 28 اگست کو بیان جاری کیا کہ ملک میں انٹرنیٹ کی بحالی اکتوبر تک نہیں ہوپائے گی۔
انٹرنیٹ خراب ہونے سے متعلق حکومت اب تک کیا وجوہات بتا چکی ہے اس پر نظر ڈالتے ہیں۔
25 جولائی کو حکومت نے ملک بھر میں فائر وال نصب کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ جو حکومت کے بقول جس کا مقصد سوشل میڈیا پر منفی پروپگینڈا کے خلاف کریک ڈاوٴن کرنا ہے۔
19 اگست کو پاکستان کی وزیر مملکت برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی شازہ فاطمہ خواجہ نے ملک میں انٹرنیٹ بند ہونے کی رپورٹس پر کہا کہ حکومت انٹرنیٹ بند کرنے کی ذمہ دار نہیں ہے اور کہا کہ عوام کی جانب سے ورچوئل پرائیویٹ نیٹ ورکس (وی پی این) کی استعمال کی وجہ سے انٹرنیٹ کی رفتار سُست ہے۔
21 اگست کو سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کی میٹنگ میں پی ٹی اے چیئرمین میجر جنرل (ر) حفیظ الرحمن سے جب پوچھا گیا تو انہوں نے فائر وال لگانے کی خبروں سے صاف انکار کیا اور کہا کہ کس نے کہا ہے کہ یہ فائر وال ہے؟ یہ ویب مینجمنٹ سسٹم ہے، فائر وال کا لفظ کہیں نہیں ہے، یہ آپ نے خود بنایا ہوا ہے۔
22 اگست کو پی ٹی اے نے ایک پریس ریلیز جاری کی جس میں بتایا کہ سمندر کے اندر موجود ایک کیبل سے 7.5 ٹیرابائٹ کا انٹرنیٹ ڈیٹا منتقل ہوتا ہے اور پاکستان میں ایسی 7 کیبلز آتی ہیں جن میں سے 2 خراب ہیں۔
بیان میں بتایا کہ اے اے ای - 1 کیبل کو ایران اور قطر کے درمیان ری راؤٹنگ کی وجہ سے 250 جی کی بندش کا سامنا کرنا پڑا ہے، اسی طرح ایس ایم ڈبلیو 4 کیبل (1.5 ٹی) کراچی کے قریب خراب ہے۔
ویب مینجمنٹ سسٹم (ڈبلیو ایم ایس) کیا ہے؟
چیئرمین پی ٹی اے نے انڈیپنڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’2006 سے ویب مینیجمنٹ سسٹم موجود تھا جبکہ مارچ 2019 میں فائر وال کا نظام منظور ہوا۔ 2019 میں اس سسٹم کی اپ گریڈیشن شروع کی گئی، اسے پہلے ڈبلیو ایم ایس کہتے تھے، جسے مارچ 2019 میں نیشنل فائر وال سسٹم کا نام دیا گیا۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ ’پی ٹی اے ویب مینیجمنٹ سسٹم کو اپ گریڈ کر رہا ہے، اسے آپ کوئی بھی نام دے دیں۔ دنیا میں وی پی این بند نہیں کیے جاتے، اس سے کاروبار متاثر ہوتے ہیں۔ وی پی این کو بند نہیں کیا جا رہا صرف رجسٹریشن کروانے کا کہا ہے۔‘
ڈبلیو ایم ایس ایک ایسا سسٹم ہے جو 2018 میں سینڈ وائن سے خریدا گیا تھا، سینڈ وائن ایک کمپنی ہے جو انٹرنیٹ ٹریفک کنٹرول کے لیے ٹیکنالوجی کا استعمال کرتی ہے۔ یہ ٹیکنالوجی وی پی این ٹریفک کو بلاک کر سکتی ہے۔ ڈبلیو ایم ایس یعنی ویب مینیجمنٹ سسٹم کے ذریعے ٹیلی کام اتھارٹی پاکستان میں آنے اور جانے والے تمام انٹرنیٹ ٹریفک کی نگرانی کر سکتی ہے۔
2023 کو ختم ہونے والے سینڈ وائن معاہدے کے مطابق سسٹم یو آر ایل کو فلٹر کر سکتا ہے، آئی پی ایڈریسز اور ویب سائٹس کو بلاک کر سکتا ہے اور بعض وی پی این کی وائٹ لسٹنگ بھی کرسکتا ہے۔
ہم ان بدلتے بیانات کو نہیں مانتے، ایمنسٹی انٹرنیشنل
ایک مہینے سے انٹرنیٹ سست ہونے پر انسانی حقوق کے عالمی ادارے ایمنسٹی انٹرنیشنل سے تعلق رکھنے والی حاجرہ مریم نے ینی شفق کو بتایا کہ ’ایمنسٹی پاکستان کے بدلتے بیانات کو نہیں مانتا۔ حکومت کی وجوہات ایک دوسرے کے بالکل منافی ہے۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ ’یہ ہم اس لیے بھی کہہ رہے ہیں کیونکہ اگر ہم ماضی میں دیکھیں تو صحافیوں اور انسانی حقوق کے کارکنان کے خلاف تشدد کے ساتھ پیش آیا جاتا ہے یا انہیں اچانک سے غائب بھی کردیا جاتا ہےاس ماحول میں حکومت کے بیانیے کو ثابت کرنا کافی مشکل ہے۔ ہم حکومت سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ انٹرنیٹ کے سست رفتار کی وجہ پر غیر واضح نہ ہوں۔ ‘
’روٹی کپڑا مکان نہیں، انٹرنیٹ چاہیے‘
پاکستان میں ایک دن بھی انٹرنیٹ نہ ہو تو کروڑوں ڈالر کا نقصان ہوسکتا ہے، آئی ٹی کمپنیز جو باہر ممالک سے کاروبار کرکے پاکستان کی کمزور ایکانومی میں جان ڈالتی ہیں ان کا کاروبار اور امیج تو متاثر ہوتا ہی ہے، ساتھ ہی وہ غریب لوگ جو روز کمانے کرنے کے لیے آن لائن رائیڈنگ اور فوڈ دیلویری ایپ پر کام کرتے ہیں ان کا کام پر داوٴ پر لگ گیا ہے۔
طفیل احمد نے ینی شفق کو بتایا کہ ’نیٹ بلاکس کے مطابق اگر پاکستان میں ایک پورا دن انٹرنیٹ بند رہے تو پچاس ہزار ملین ڈالرز سے زیادہ کا نقصان ہوتا ہے۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’سال 2022 اور 2023 میں پاکستانی فری لانسرز ساڑھے تین سو ملین ڈالرز کما کر چکے ہیں۔ ‘
طفیل احمد نے ایشین ڈیولپمنٹ بینک کی ریسیرچ کی رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ ’پاکستان میں اس وقت 2.3 ملین فری لانسرز ہیں۔ جس ملک میں پچیس سے تیس لاکھ لوگ ہوں انہیں روٹی کپڑا مکان نہیں چاہیے بلکہ انہیں انٹرنیٹ، وائی فائی چاہیے۔ اگر انہیں انٹرنیٹ ملے گا تو وہ خود اپنا روٹی کپڑا مکان کا بندوبست کرلیں گے۔‘
کیا واقعی سب میرین کی خرابی کی وجہ سے انٹرنیٹ متاثر ہے؟
سب میرین کیبل میں خرابی سے متعلق معلومات حاصل کرنے کے لیے جب ہم نے چیئرمین پی ٹی اے سے جب ہم نے رابطہ کرنے کی کوشش کی تو کوئی رابطہ موصول نہیں ہوا۔
کچھ ہفتے پہلے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی کا ایک اجلاس بھی ہوا تھا جس میں آئی ٹی منسٹر، سینیٹرز اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کے سابق وزیر نے بھی شرکت کی تھی۔
جب ینی شفق نے سینیٹر شرمیلا فاروقی سے سوال کیا کہ کیا وہ چیئرمین پی ٹی اے کے بدلتے بیانات سے متفق ہیں اور سب میرین کیبلز خراب ہونے سے پورے انٹرنیٹ کا نظام متاثر ہوتا ہے تو صرف کچھ ایپلی کیشن پر کیوں اثر پڑرہا ہے؟
جس پر شرمیلا فاروقی نے کہا کہ ’مجھے نہیں معلوم کہ وہ صحیح کہہ رہے ہیں یا نہیں، ہم ان کی بات صرف سُن سکتے ہیں، ہم یہ تو نہیں کہہ سکتے کہ تو غلط بیانی کررہے ہیں، ایک ذمہ دار حکومتی عہدیدار کچھ کہہ رہے ہیں تو اس میں کوئی نہ کوئی صداقت ہوگی۔‘
شرمیلا فاروقی نے کہا کہ ’ایک جانب شہباز شریف بول رہے ہیں پاکستان کی آئی ٹی سیکٹر کو بڑھانا تو ایسے وقت میں اس قسم کے انٹرنیٹ کے مسائل یہ ثابت کرتے ہیں پاکستان عالمی ڈیجیٹل اکانومی کا ناقابل یقین پارٹنر ہے‘
البتہ جب ان سے پوچھا گیا کہ انٹرنیٹ کا مسئلہ کب تک حل ہوجائے گا تو انہوں نے کہا کہ ’چیئرمین پی ٹی اے نے ہمیں کوئی بھی ٹائم فریم نہیں بتایا کہ کب تک انٹرنیٹ کے مسائل ختم ہوں گے۔ ‘
اسی حوالے سے جب ینی شفق نے سابق وفاقی وزیر برائے آئی ٹی اور ٹیلی کمیونیکیشن سید امین الحق سے رابطہ کیا تو انہیں بھی سب میرین کیبلز میں خرابی سے متعلق معلومات نہیں تھیں۔
فرانسیسی ریسرچر نومے اوپلنسکی نے اپنی تحقیق کے عنوان The Quest for a Resilient Internet Access in a Constrained Geopolitical Environment میں وضاحت کی ہے کہ پاکستان میں انٹرنیٹ کا موجودہ اسٹرکچر ایسا بنایا گیا ہے جس کی وجہ سے حکام اس پر کچھ حد تک کنٹرول کرسکتے ہیں۔
نومے اوپلنسکی نے خبردار کیا کہ ایران اور چین جیسے ممالک نے زیادہ جدید نیٹ ورک سسٹمز کا استعمال کرکے انٹرنیٹ کو کنٹرول کرنے میں کامیاب ہوئے۔ لیکن اس کے لیے منصوبہ بندی اور پیسوں کی ضرورت ہے، جس پر پاکستان فی الحال توجہ نہیں دے رہا۔
امریکی ادارے انٹرنیٹ سوسائٹی کے مطابق انٹرنیٹ کو بلاک یا محدود کرکے غیر قانونی مواد یا سرگرمیوں کو روکنا بہتر طریقہ نہیں ہے اور یہ فارمولا اکثر مقاصد حاصل کرنے میں ناکام رہتا ہے اور ایسے طریقوں سے انٹرنیٹ صارفین کو نقصان پہنچتا ہے۔