افغانستان میں طالبان حکومت نے ملک میں اخلاقیات کے حوالے سے نئے ضابطے جاری کردیے۔ جس کے تحت خواتین کے گھر سے باہر اونچی آواز میں بات کرنے پر پابندی عائد کرتے ہوئے چہرہ دکھانے سے بھی منع کردیا اور مردوں کے لیے داڑھی رکھنے کو لازمی قرار دیا گیا ہے۔
خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق افغانستان کی وزارت انصاف نے کہا کہ یہ پابندیاں بدھ کے روز شائع ہونے والے ایک نئے حکم نامے کا حصہ ہیں جو افغانستان کے سپریم لیڈر ہیبت اللہ اخندزادہ کی منظوری کے بعد شائع کیا گیا ہے۔
منسٹری آف مورالٹی، جسے منسٹری فار پریوینشن آف وائس اینڈ پروپیگیشن آف ورچوٹی کہا جاتا ہے، پہلے سے ہی اس قسم کے قوانین پر عمل درآمد کروارہی اور وزارت کا کہنا ہے کہ اب تک اخلاقیات کے حوالے سے قوانین کی خلاف ورزی پر ہزاروں افراد کو گرفتار کیا جاچکا ہے۔
2021 میں جب سے طالبان نے افغانستان کا کنٹرول سنبھالا ہے، خواتین اور اظہار رائے کی آزادی پر پابندیاں عائد کی گئی جس پر اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کے اداروں نے سخت تنقید کی۔
نئے قانون کے تحت خواتین کی آواز کو عوامی سطح پر ’بُرا‘ قرار دیا گیا ہے۔
نئی پابندیاں کون سی ہیں؟
1۔ نئے قوانین کے مطابق خواتین کو ’فتنہ پیدا کرنے‘ سے بچنے کے لیے ایسا لباس پہنا لازمی ہے جو ان کے چہرے اور جسم کو مکمل طور پر ڈھانپتا ہو۔ ان کا لباس پتلا، چھوٹا یا تنگ نہیں ہونا چاہیے۔
2۔ عوامی مقامات پر خواتین کی بلند آواز میں بولنے، گانا گنگنانے کی اجازت نہیں ہوگی اور خواتین کو ان مردوں کی طرف دیکھنے کی بھی اجازت نہیں ہے جن سے ان کا خاندانی رشتہ نہ ہو۔
3. مردوں کو یہ بھی ہدایت کی گئی ہے کہ وہ گھٹنے کے اوپر تک شارٹس نہ پہنیں اور داڑھی نہ منڈوائیں۔ نماز اور روزے چھوڑنے سے بھی منع کیا گیا ہے۔
4۔ مردوں کے لیے بالوں کا مختلف اسٹائل بنانے اور ٹائی پہننے پر پابندی ہوگی جبکہ داڑھی مٹھی بھر لمبی ہونی چاہیے۔
5۔ گاڑی میں سفر کرتے وقت موسیقی، منشیات کے استعمال اور بے پردہ خواتین کو بٹھانے سے بھی منع کیا گیا ہے جو ان کی محرم نہ ہوں۔
6۔ دیگر قوانین میں ہم جنس پرستی، نماز نہ پڑھنا، زنا، جوا، جانوروں کو لڑانے یا اپنے والدین کی نافرمانی پر پابندی ہے۔ اس کے علاوہ کمپیوٹر یا فون پر کسی جاندار کی تصاویر بنانے کا دیکھنے پر بھی پابندی شامل ہے۔
7۔ قانون کے مطابق میڈیا آؤٹ لیٹس ایسا مواد شائع نہ کریں جو شریعت اور مذہب کے خلاف ہو، جو مسلمانوں کی تذلیل کرتا ہو
وزارت انصاف کے مطابق خلاف ورزیوں کی صورت میں دی جانے والی سزاؤں میں تنبیہ کرنا، عذاب الٰہی کا خوف دلانا، زبانی دھمکی دینا، جائیداد ضبط کرنا، ایک گھنٹے سے لے کر تین دن تک دورانیے کے لیے جیل میں حراست میں رکھنا اور مناسب سمجھی جانے والی کوئی دوسری سزا شامل ہوسکتی ہے۔
وزارت کے بیان کے مطابق اگر ان اقدامات سے کسی فرد کے طرز عمل میں بہتری نہ آئے تو مزید کارروائی کے لیے عدالت سے رجوع کیا جائے گا۔
غیر ملکی خبررساں ایجنسی کے مطابق یہ بات واضح نہیں کہ آیا نئے ضابطوں کے جاری ہونے کے بعد ان کا نفاذ مزید سخت ہوگا یا نہیں۔