پاکستان کی وزیر مملکت برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی شازہ فاطمہ خواجہ نے ملک میں انٹرنیٹ بند ہونے کی رپورٹس پر کہا کہ حکومت انٹرنیٹ بند کرنے کی ذمہ دار نہیں ہے اور کہا کہ عوام کی جانب سے ورچوئل پرائیویٹ نیٹ ورکس (وی پی این) کی استعمال کی وجہ سے انٹرنیٹ کی رفتار سُست ہے۔
پاکستانی فری لانسرز اور انٹرنیٹ صارفین نے پچھلے مہینے ملک بھر میں سست انٹرنیٹ کی شکایت کی تھی۔ وائرلیس اینڈ انٹرنیٹ سروس پرووائیڈرز ایسوسی ایشن آف پاکستان نے تصدیق کی تھی کہ انٹرنیٹ کی رفتار 30-40 فیصد تک کم ہو گئی ہے۔
یہ پیشرفت اس وقت ہوئی جب حکومت نے سوشل میڈیا پر فیک مواد کو بلاک کرنے، نیٹ ورکس کو سائبر حملوں سے بچانے کے لیے ملک بھر میں فائر وال لگانے کی اجازت دی تھی۔
فائر وال ایک نیٹ ورک سیکیورٹی ڈیوائس ہے جو پہلے سے طے شدہ سیکیورٹی پیرامیٹرز کی بنیاد پر آنے اور جانے والے نیٹ ورک ٹریفک کی نگرانی اور انہیں فلٹر کرتا ہے۔ یہ ایک رکاوٹ کے طور پر کام کرتا ہے جس کا بنیادی مقصد خطرناک مواد اور وائرس کو روکنا ہے۔
شازہ فاطمہ خواجہ نے ایک نیوز کانفرنس میں صحافیوں کو بتایا کہ ’میں حلف اٹھا کر کہہ سکتی ہوں کہ حکومت نے انٹرنیٹ بند نہیں کیا اور نہ ہی اسے سست کیا ہے‘۔
وزیر آئی ٹی نے وضاحت کی کہ وی پی این استعمال کرنے والے صارفین لوکل کونٹینٹ ڈیلوری نیٹ ورک (سی ڈی این) کے بجائے براہ راست انٹرنیشنل اسٹریم استعمال کرنا شروع کر دیتے ہین اور ایسے صارفین کی تعداد زیادہ ہونے کے باعث ڈاؤن لوڈنگ خصوصاً کم ہو جاتی ہے۔
شازہ فاطمہ خواجہ نے کہا کہ وی پی این استعمال کرنے والے لوگوں کی طرف سے اس پر ڈالے جانے والے ’دباؤ‘ کی وجہ سے انٹرنیٹ کچھ دنوں سے سست ہو گیا تھا۔ وزیرآئی ٹی نے کہا کہ وہ اگلے ہفتے تکنیکی ماہرین اور انٹرنیٹ سروس فراہم کرنے والوں سے مشورہ کریں گی تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ انٹرنیٹ میں اس طرح کی رکاوٹیں دوبارہ نہ ہوں۔
پاکستان فری لانسرز ایسوسی ایشن کے صدر نے اس ہفتے کہا تھا کہ انٹرنیٹ کی سست رفتار کی وجہ سے 23 لاکھ پاکستانی فری لانسرز کے کاروبار کو نقصان پہنچا ہے۔
طفیل احمد نے عرب نیوز کو بتایا کہ ’صرف فری لانسرز ہی نہیں بلکہ آئی ٹی کمپنیاں اور ای کامرس کاروبار بھی انٹرنیٹ کی رفتار میں کمی سے متاثر ہیں۔‘
اس دوران پاکستانی فری لانسرز نے بھی شکایت کی تھی کہ سست انٹرنیٹ کی وجہ سے انہیں بہت زیادہ نقصان اٹھانا پڑا۔
2014 سے بطور فری لانس ویڈیو اینیمیٹر کام کرنے والے عثمان محمود نے کہا کہ سست انٹرنیٹ کی وجہ سے کلائنٹس کے ساتھ رابطہ نہیں ہوتا اور کام میں رکاوٹ پیدا ہورہی ہے۔‘
محمود نے بتایا کہ ’ہمارے کام میں پراجیکٹ کی ڈیلیوری ضروری ہوتی ہے ورنہ کلائنٹ دوسرے ممالک سے کام لینا شروع ہوجاتے ہیں جو اب ہو رہا ہے۔‘