امریکی نائب صدر کملا ہیرس اور سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ صدارتی مباحثے میں پہلی بار آمنے سامنے آئے۔ اسٹیج پر پہنچتے ہی دونوں نے ایک دوسرے کے ساتھ ہاتھ ملایا۔
ڈیموکریٹس کی امیدوار کملا ہیرس اور ریپبلکن امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ نے صدارتی مباحثے کے دوران معیشت، امیگریشن، اسقاط حمل، روس یوکرین جنگ، غزہ جنگ سمیت دیگر اہم مضوعات پر اپنا موٴقف پیش کیا۔
یہ صدارتی مباحثہ 90 منٹ تک جاری رہا۔ ماہرین کے مطابق اس بحث میں اصل مسائل کے بجائے ذاتی حملوں پر زیادہ توجہ دی گئی۔
دونوں رہنماوٴں نے جن اہم موضوعات پر بحث کی جو یہ ہیں:
امیگریشن پالیسی:
ٹرمپ نے کہا کہ ’میں تارکین وطن کو ملک سے نکالوں گا جو امریکی تاریخ کا سب سے بڑا آپریشن ہوگا اور ان کے امریکا میں پیدا ہونے والے بچوں کو امریکی شہریت نہیں ملے گی۔‘
انہوں نے الزام عائد کیا کہ تارکین وطن امریکی شہر سپرنگ فیلڈ، اوہائیو میں شہریوں کے پالتو جانور کھا رہے ہیں۔
صدراتی بحث کے دوران ٹرمپ نے جیسے ہی اس موضوع پر دوبارہ بات کرنے کی کوشش کی تو پروگرام کے ماڈریٹرڈیوڈ موئیر نے انہیں ٹوک دیا اور بتایا کہ یہ جعلی خبر ہے اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
جس پر ٹرمپ نے کہا کہ ’میں نے ٹی وی لوگوں کو یہ کہتے سنا ہے کہ وہ میرے کتے کو لے گئے اور اسے کھا لیا۔‘ جس پر کملا ہیرس نے کہا کہ ’اسے کہتے ہیں انتہا‘۔
روس یوکرین جنگ
ٹرمپ نے کہا کہ ’میں روس کے ساتھ مذاکرات کرکے 24 گھنٹوں میں یوکرین میں جنگ ختم کردوں گا۔ یہ امریکہ کے بہترین مفاد میں ہے کہ اس جنگ کو فوری ختم ہوجانا چاہیے۔‘
اس کے جواب میں کملا ہیرس نے کہا کہ ’ٹرمپ کے کہنے کا مطلب ہے کہ وہ یہ جنگ 24 گھنٹوں میں اس لیے ختم کردیں گے کیونکہ وہ ہار مان جائیں گے۔ ‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’پوتن ایک ڈکٹیٹر ہیں جو آپ کو لنچ میں کھا جائیں گے۔‘ ہمارے نیٹو اتحادی انتہائی شکر گزار ہیں کہ اب آپ صدر نہیں رہے۔ ورنہ پوتن اس وقت یوکرین کے دارالحکومت کیئو میں بیٹھے ہوتے۔
اسرائیل غزہ جنگ
ٹرمپ نے کہا کہ ’اگر میں صدر ہوتا تو یہ جنگ کبھی شروع ہی نہ ہوتی۔ کملا ہیرس اسرائیل سے نفرت کرتی ہیں۔ وہ عربوں سے بھی نفرت کرتی ہی۔ اگر وہ صدر بن گئیں تو مجھے یقین ہے کہ اب سے دو سالوں میں اسرائیل کا وجود نہیں رہے گا۔‘
کملا ہیرس نے کہا کہ ’اسرائیل کو دفاع کا حق حاصل ہے، یہ بھی سچ ہے کہ بہت سے معصوم فلسطینی مارے گئے لیکن یہ جنگ جلدی ختم ہونی چاہیے۔ میں ہمیشہ اسرائیل کو سپورٹ کرتی ہوں خاص طور پر جب ایران اور اتحادیوں کی طرف سے خطرات لاحق ہوں۔‘