انڈیا بھوپال گیس حادثہ: فیکٹری سے زہریلہ فضلہ اٹھانے میں 40 سال کیوں لگے؟

07:443/01/2025, جمعہ
جنرل3/01/2025, جمعہ
ویب ڈیسک
مدھیہ پردیش کے بھوپال میں ایک کچی بستی کے قریب واقع یونین کاربائیڈ فیکٹری کو سانحے کے بعد بند کردیا گیا تھا
تصویر : AFP / اے ایف پی
مدھیہ پردیش کے بھوپال میں ایک کچی بستی کے قریب واقع یونین کاربائیڈ فیکٹری کو سانحے کے بعد بند کردیا گیا تھا

انڈیا کے شہر بھوپال میں 40 سال پہلے ایک فیکٹری میں پیش آنے والے گیس لیک حادثے کا زہریلہ فضلہ اٹھا لیا گیا۔

سال 1984 کو انڈیا کی ریاست مدھیہ پردیش کے شہر بھوپال میں امریکہ کی ملکیت والے کیمیکل پلانٹ کمپنی ’یونین کاربائیڈ فیکٹری‘ میں گیس کے اخراج سے ہزاروں لوگ ہلاک ہوگئے تھے۔

پچھلے مہینے دسمبر میں انڈیا کی سپریم کورٹ نے فیکٹری سے زہریلہ فضلہ ہٹانے کے لیے چار ہفتوں کی ڈیڈ لائن دی تھی۔

بدھ کے روز یونین کاربائیڈ فیکٹری سے تقریباً 337 ٹن زہریلا فضلہ 230 کلومیٹر دور واقع کچرے جلانے والے پلاںٹ لے جایا گیا۔ حکام کے مطابق کچرے کو جلانے اور ٹھکانے لگانے میں تین سے نو ماہ لگ سکتے ہیں۔

دسمبر 1984 میں فیکٹری سے نکلنے والی زہریلی گیس میں سانس لینے سے ہزاروں افراد ہلاک ہو گئے تھے، اس وقت سے لے کر زہریلا فضلہ فیکٹری میں پڑا تھا، جو ارد گرد کے علاقوں میں زیر زمین پانی کو آلودہ کر رہا تھا۔

اس ہفتے ہٹائے جانے والے زہریلے فضلے میں پانچ خطرناک مواد شامل تھے، جیسا کہ ایسے کیمیکلز جس کے نہ ختم ہونے والے اثرات ہوتے ہیں۔

اتنے سالوں کے دوران پرانی فیکٹری میں موجود یہ کیمیکل یا زہریلا مٹیریل قریبی علاقوں میں پھیل رہا تھا، جو وہاں رہنے والے لوگوں کی صحت کے لیے انتہائی خطرناک تھا۔

کمپنی کے زہریلے فضلے کو ٹرک میں رکھ کر لے جایا جارہا ہے

زہریلہ فضلہ اٹھانے میں اتنے سال کیوں لگے؟

فیکٹری کا زہریلہ فضلہ اٹھانے کے خلاف ایکٹوسٹ اور ڈسپوزل سائٹ کے قریب رہنے والے لوگ احتجاج کر رہے ہیں۔

حکام کا کہنا ہے کہ فضلے کو جلا کر محفوظ طریقے سے ٹھکانے لگایا جائے گا جس سے ماحول کو نقصان نہ پہنچے، لیکن ایکٹوسٹ کہتے ہیں کہ فضلے کو جلانے کے بعد بچ جانے والے مواد کو زمین میں دفن کر دیا جائے گا، جو پانی کو آلودہ کر سکتا ہے اور ماحولیاتی مسائل پیدا ہوسکتے ہیں

ہندوستان ٹائمز کے مطابق ایکٹوسٹ کا کہنا تھا کہ کاربائیڈ فیکٹری کے فضلے کو 2015 میں ٹیسٹ کے طور پر پلانٹ میں جلا دیا گیا تھا۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ اس ٹیسٹ سے مٹی، زیر زمین پانی اور قریبی دیہات میں آلودگی پیدا ہوئی۔

بھوپال گیس سانحہ کے ریلیف اور بحالی کے محکمہ کے سربراہ سواتنتر کمار سنگھ نے ان دعووٴں کو مسترد کردیا، وہ کہتے ہیں کہ زہریلے فضلے کو جلانے سے قریبی دیہاتوں پر بُرے اثرات نہیں ہوں گے۔ کئی برسوں سے حکام نے بھوپال فیکٹری سے فضلہ کو ہٹانے کی کئی بار کوشش کی، لیکن ایکٹوسٹ کی مخالفت کی وجہ سے انہوں نے اپنا کام روکنا پڑا۔

بھوپال گیس سانحہ دنیا کی بدترین صنعتی آفات میں سے ایک ہے۔

حکومتی اندازوں کے مطابق جب یہ واقعہ پیش آیا تو اس کے صرف کچھ دنوں میں تقریباً 3,500 افراد ہلاک ہوئے، اور بعدازاں یہ تعداد 15,000 سے زیادہ ہوگئی تاہم ایکٹوسٹ کا خیال ہے کہ مرنے والوں کی تعداد بہت زیادہ ہے اور کئی متاثرین آج بھی صحت کے مسائل کا سامنا کررہے ہیں۔

2010 میں انڈین عدالت میں اس حوالے سے کیس بھی دائر ہوا تھا جس میں کمپنی کے 7 سابق مینیجرز ملوث نکلے، عدالت نے ان پر جرمانہ اور مختصر قید کی سزائیں سنائی تھیں۔ لیکن بہت سے متاثرین نے اس فیصلے سے مطمئن نہیں تھے، وہ کہتے ہیں کہ اُن کے ساتھ انصاف نہیں ہوا۔









#انڈیا
#سانحہ
#صحت