ساوٴتھ کوریا میں مارشل لگانے کا اعلان کرنے والے صدر یون سک یول کو ووٹنگ کے ذریعے عہدے سے ہٹا دیا گیا۔ انہوں نے ملک میں اچانک مارشل لا لگانے کا اعلان کیا تھا جس کے بعد اپوزیشن اور عوام کی جانب سے سخت ردعمل سامنے آیا تھا۔
یون سک یول نے 3 دسمبر کی رات کو ملک میں اچانک مارشل لا لگانے کا اعلان کیا تھا جو صرف 8 گھنٹے تک ہی قائم رہ سکا۔ اس اچانک فیصلے سے عوام حیران ہوئے اور یون کو صدر کے عہدے سے ہٹانے اور انہیں گرفتار کرنے کے مطالبے بھی سامنے آئے۔
یہ 1990 کے بعد پہلی بار ہوا ہے کہ ساوٴتھ کوریا کے صدر نے مارشل لا لگانے کا فیصلہ کیا ہو۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق 8 دسمبر کو ساوٴتھ کوریا کی نیشنل اسمبلی کے 300 قانون سازوں میں سے 204 نے بغاوت کے الزامات پر صدر یون سک یول کو عہدے سے ہٹانے کے حق میں ووٹ دیا۔
ووٹنگ کے بعد یون سک یول کو عہدے سے ہٹا دیا گیا ہے، دوسری جانب وزیراعظم ہان ڈک سو نے عبوری صدر کے طور پر ذمہ داریاں سنبھال لی ہیں۔
چند گھنٹے کے مارشل لا کو اپوزیشن نے کیسے ناکام بنایا؟
یون سک یول نے 3 دسمبر کی رات 11 بجے ٹیلی ویژن پر خطاب کرتے ہوئے ملک میں مارشل لا لگانے کا اعلان کیا، اسی دوران انہوں نے یہ بھی کہا کہ ’میرے ہم وطنو، میں جمہوریہ کوریا کے صدر کی حیثیت سے اپیل کر رہا ہوں کہ میرا دل خون کے آنسو رو رہا ہے‘۔
یعن نے مارشل لا لگانے کی وجہ یہ بتائی کہ ’اپوزیشن لیڈر نارتھ کوریا کے ساتھ مل کر ملک دشمن سرگرمیوں میں ملوث ہے‘۔
یون کے اس اعلان کے بعد تمام اختیارات فوج کو سونپ دیے گئے اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکار قومی اسمبلی کی عمارت کے باہر تعینات کر دیے گئے، اسمبلی کے دروازے بند کردیے گئے اور رکاوٹیں کھڑی کر دی گئیں، قومی اسمبلی کی عمارت کی چھت پر ہیلی کاپٹروں کو اترتے ہوئے بھی دیکھا گیا۔
یہی نہیں بلکہ فوج نے میڈیا کو حکومتی کنٹرول میں دینے کا حکم جاری کیا۔
تاہم اپوزیشن، خود صدر یون کی سیاسی جماعت ’پیپلز پاور پارٹی‘ کے رہنما اور دیگر سیاست دانوں نے فوری طور پر صدر یون کے اس اعلان کو غیر قانونی اور آئین کے خلاف قرار دیتے ہوئے اسے مسترد کردیا۔
یون کی جانب سے مارشل لگانے کے اعلان کے فوراً بعد ہزاروں مظاہرین اسمبلی کے قریب جمع ہو گئے اور ’مارشل لا ختم کرو!‘ کے نعرے لگائے۔
دوسری جانب اراکین اسمبلی تمام رکاوٹوں کو عبور کرکے اندر جانے میں کامیاب ہوئے، کچھ اراکین نے دیواریں پھلانگ کرکے اور کھڑکیاں توڑ کر اسمبلی کے اندر پہنچے۔
آدھی رات کو اسمبلی کا اجلاس شروع ہوا جس کی کارروائی سوشل میڈیا پر براہ راست نشر کی گئی۔ اجلاس کے دوران مارشل لا کے خلاف قرارداد پیش کی گئی جسے منظور کرلیا گیا اور یوں 4 دسمبر کی صبح ساڑھے چار بجے صدر یون نے مارشل لگانے کا فیصلہ واپس لے لیا۔
یون سک یول کون ہیں؟ اور ان پر کیا دباوٴ تھا؟
صدر یون نے ایسے وقت میں مارشل لا لگانے کا اعلان کیا جب عوام میں ان کی مقبولیت پہلے ہی بہت کم تھی۔ حالیہ سروے سے پتہ چلتا ہے کہ صرف 25 فیصد عوام بطور صدر اُن کی کارکردگی سے خوش ہیں، سروے سے معلوم ہوا ہے کہ عوام میں ان کی کم ہوتی حمایت کی وجہ سے وہ دباوٴ میں تھے۔
یون مئی 2022 میں ملک کے صدر بنے تھے۔ ان کا تعلق کنزرویٹو (قدامت پسند) دھڑے سے ہے اور نارتھ کوریا کے خلاف زیادہ سخت موقف اور امریکہ کے ساتھ مضبوط اتحاد ان کے ایجنڈے کا حصہ ہیں۔ اپریل میں اپوزیشن کی الیکشن میں کامیابی کے بعد سے ان کی صدارت کمزور ہو چکی تھی۔
مارشل لگانے کے اعلان کے لیے جب وہ تقریر کررہے تھے تو صدر یون نے اپنے سیاسی مخالفین کو تنقید کا نشانہ بنایا اور شمالی کوریا کی جانب سے کسی براہ راست دھمکی کا ذکر نہیں کیا۔ انہوں نے صدر کا عہدہ سنبھالنے کے بعد اپوزیشن کی جانب سے 22 بار عہدے سے ہٹانے کی تحریکوں پر مایوسی کا اظہار کیا۔
یون نے اپنی اہلیہ اور سینئر عہدیداروں کے سکینڈلز کی آزادانہ تحقیقات کی اجازت دینے سے بھی انکار کیا۔