پاکستان کے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کا احتجاج منگل کو اُس وقت ختم کر دیا گیا جب حکومت کی جانب سے ڈی چوک پر مظاہرین کے خلاف گرینڈ آپریشن شروع کیا گیا۔
پی ٹی آئی نے 24 نومبر (اتوار) کو احتجاج کی کال دی تھی، پورے ملک بالخصوص صوبہ پختونخوا سے کارکنوں نے قافلے کی شکل میں اسلام آباد کا رخ کیا۔ اور اگلے ہی دن 23 نمبر کو اسلام آباد پہنچ گئے تھے۔ تاہم جب تمام رکاوٹوں کو عبور کرکے کارکن ڈی چوک پہنچے تو 24 گھنٹوں کے اندر منگل کو سیکورٹی فورسز کی طرف سے رات گئے کریک ڈاوٴن/گرینڈ آپریشن کیا گیا اور آنسو گیس کی شیلنگ اور فائرنگ کرکے مظاہرین کو منتشر کردیا گیا۔ اور قریب 800 کارکنوں کو حراست میں لے لیا۔
اسی دوران پارلیمنٹ کے قریب کنٹینرز پر کھڑے پی ٹی آئی کے مظاہرین کی فوٹیج بھی سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی۔ ایک فوٹیج میں یہ بھی دیکھا گیا کہ فوجی اہلکار خود مظاہرین کو کنٹینر پر چڑھنے میں مدد کررہے ہیں۔ تاہم پیر کو رات گئے سیکیورٹی اہلکاروں نے مظاہرین کو پیچھے دھکیلنے کے لیے فائرنگ کی اور آنسو گیس پھینکی جس میں مبینہ طور پر پی ٹی آئی کے کارکنوں کی ہلاکتیں بھی ہوئیں اور کئی لوگ زخمی ہوئے۔
عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کے ساتھ وزیر اعلیٰ گنڈا پور نے مارچ کی قیادت کی تھی۔ منگل کے روز جیسے ہی آپریشن شروع ہوا اور سیکیورٹی فورسز نے ہجوم کو منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس کا استعمال کیا، بشریٰ بی بی اور خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ علی امین گنڈا پور اندھیرے میں مانسہرہ واپس چلے گئے۔ بدھ کی صبح تک پی ٹی آئی نے ایک بیان جاری کرتے ہوئے اعلان کیا کہ وہ احتجاج کو ’وقتی طور پر‘ ختم کر رہی ہے۔
بشریٰ بی بی نے کارکنوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’جب تک خان (عمران خان) ہمارے پاس نہیں آ جائیں گے ہم اس مارچ کو ختم نہیں کریں گے۔‘ تاہم پیر کی رات وہ علی امین گنڈا پور کے ہمراہ کارکنوں کو چھوڑ کر گاڑی میں بیٹھ کر واپس مانسہرہ چلی گئیں۔
اس دوران یہ بھی دیکھا گیا کہ پی ٹی آئی کی سینئر قیادت چیئرمین پی ٹی آئی بیرسٹر گوہر، پارٹی رہنما سلمان اکرم راجا، شیر افضل مروت منظر عام سے غائب تھے۔
پی ٹی آئی کی قیادت واپس کیوں چلی گئی اور حکومت کے پاس کیا آپشن ہے؟
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی کی قیادت دباؤ میں تھی۔ پارٹی کے مطالبات پورے نہیں ہوئے اور یہ بات واضح نہیں تھی کہ پارٹی دوبارہ منظم کیسے ہوگی۔
سیاسی تجزیہ کار ضیغم خان نے الجزیرہ کو بتایا کہ ’یہ احتجاج ان کی 'فائنل کال' تھی، لیکن اُن کا اس طرح سے گِرنا اُن کی سیاسی حکمت عملی کے لیے ایک بڑا دھچکا ہے۔‘
یاد رہے کہ اسلام آباد میں احتجاج کی کال بانی پی ٹی آئی عمران خان نے دی تھی جو پچھلے ایک سال سے جیل میں قید ہیں اور 150 سے زائد مقدمات کا سامنا کررہے ہیں۔
ینی شفق سے بات کرتے ہوئے سنئیر صحافی زاہد حسین کہنا تھا کہ ’جو کچھ اسلام آباد میں ہو رہا ہے، اس نے حکومت کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ حکومت نے جس طرح تشدد اور طاقت کا استعمال کیا ہے، اس کے لانگ ٹرم میں منفی اثرات ہوں گے۔ حکومت یہ کام فوج کی مدد سے کر رہے ہیں، لیکن یہ زیادہ دیر نہیں چلے گا۔
حکومت کے پاس پولیٹیکل ڈائیلاگ کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں ہے۔‘
پی ٹی آئی کارکنوں کی ہلاکتوں کا دعویٰ
پی ٹی آئی کے آفیشل ’ایکس‘ اکاؤنٹ اور پارٹی کے کئی رہنماؤں کی جانب سے منگل ہونے والے ’گرینڈ آپریشن‘ میں سیکیورٹی حکام کی جانب سے مظاہرین پر فائرنگ اور آنسو گیس کے استعمال کے باعث پی ٹی آئی ورکرز کی ہلاکتوں کا دعویٰ کیا گیا اور ویڈیوز بھی شئیر کی جارہی ہیں۔
پی ٹی آئی کی جانب سے یہ بھی دعوے کیے جارہے ہیں کہ احتجاج میں جھڑپوں کے دوران ان کے قریب 100 کارکنان ہلاک ہوئے۔ البتہ ان اعدادوشمار کی اب تک تصدیق نہیں ہوسکی۔
حکومت انسانی حقوق کا احترام کرے، امریکا
امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان میتھیو ملر نے پاکستان میں تحریک انصاف کے احتجاج پر کہا کہ ’حکومت پاکستان سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ انسانی حقوق اور بنیادی آزادی کا احترام کرے۔‘انہوں نے پی ٹی آئی مظاہرین کو بھی پرامن رہنے اور تشدد کا راستہ استعمال نہ کرنے کا مطالبہ کیا۔
میتھیو ملر نے کہا کہ ’حکومت پاکستان امن و امان کی صورتحال کو برقرار رکھنے کے لیے پاکستانی آئین کا احترام اور قوانین پر عمل درآمد کو یقینی بنائے۔
پی ٹی آئی کے کیا مطالبات ہیں؟
پاکستان تحریک انصاف کے بانی عمران خان نے اسلام آباد تک لانگ مارچ کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ اس بار ان کے ورکرز چار مطالبات لے کر دارالحکومت آ رہے ہیں۔
عمران خان کے ایکس اکاؤنٹ پر شیئر کیے گئے پیغام میں کہا گیا کہ ’میں تمام پاکستانیوں سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ 24 نومبر کو اسلام آباد پہنچیں اور مطالبات کی منظوری تک واپس نہ جائیں‘۔
1. عمران خان سمیت تمام سیاسی قیدیوں کی رہائی
2. 26 ویں آئینی ترمیم کا خاتمہ
3. جمہوریت اور آئین کی بحالی
4. مینڈیٹ کی واپسی
یاد رہے کہ اگست 2023 میں پی ٹی آئی کے بانی عمران خان کے جیل میں جانے اور اس سال ملک میں ہونے والے عام انتخابات کے بعد پی ٹی آئی نے متعدد احتجاجی مظاہرے کیے تھے، اس دوران ان کے کئی رہنماوٴں، درجنوں کارکنان کو گرفتار کیا گیا۔
پی ٹی آئی نے جب بھی احتجاج کی کال دی تو اس دوران قانون نافذ کرنے والے اداروں اور پارٹی کارکنان کے درمیان تصادم اور جھڑپیں دیکھنے میں آئیں۔ یاد رہےکہ ایک مہینے پہلے اسلام آباد میں ہونے والے شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس کے دوران بھی پی ٹی آئی نے احتجاج کی کال دی تھی لیکن بعد میں احتجاج کی کال کینسل کردی تھی۔
عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کون ہیں؟
عمران خان کی تیسری اہلیہ اور پاکستان کی سابق خاتون اول بشریٰ بی بی پی ٹی آئی کے احتجاجی مظاہروں کی پہلی بار قیادت کررہی تھیں۔ شادی سے قبل وہ عمران خان کی روحانی پیشوا (مرشد) بھی رہ چکی ہیں۔ اور انہیں پہلے بشریٰ مانیکا کے نام سے جانا جاتا تھا۔
جنوری میں عمران خان اور بشریٰ بی بی کو جیل کی سزا سنائی گئی اور دوران اقتدار سرکاری تحائف (جس میں پرفیوم، ڈنر سیٹ اور ہیرے کے زیورات) سے مبینہ طور پر فائدہ اٹھانے کے الزام میں دونوں کو 20، 20 لاکھ ڈالر سے زائد جرمانے کی سزا سنائی گئی۔
عمران خان جیل میں کیوں ہے؟
عمران خان سرکاری تحائف کی غیر قانونی فروخت کے مقدمے میں پچھلے سال اگست سے جیل میں قید ہیں۔عمران خان اپنے دور میں مشہور کرکٹر بھی رہ چکے ہیں، وہ 2018 میں پاکستان کے وزیراعظم منتخب ہوئے اور 2022 میں عدم اعتماد کے ووٹ کے ذریعے عہدے سے ہٹا دیے گئے جس کا ذمہ دار وہ پاک فوج کو ٹھہراتے ہیں۔
71 سالہ عمران خان کا کہنا ہے کہ ان پر لگے تمام الزامات سیاسی ہیں۔ اگرچہ انہیں جیل میں قید ہوئے ایک سال کا عرصہ گزر چکا ہے لیکن آج بھی وہ ملک کی سیاست میں اہم شخصیت مانے جاتے ہیں۔
ان کا نام خبروں اور عدالتی مباحثوں اور بین الاقوامی ایجنسیوں میں بھی گردش کرتا رہتا ہے اور سوشل میڈیا پر ان کے سپورٹرز کی ایک بڑی تعداد بھی موجود ہے۔
لاہور: عمران خان کو 9 مئی کے فسادات سے متعلق 8 مقدمات کا سامنا ہے جن کی ضمانت ابھی باقی ہے۔
راولپنڈی: اُن کے خلاف 28 ستمبر اور 5 اکتوبر کے احتجاج کے دوران انسداد دہشت گردی کے 3 نئے مقدمات درج ہیں۔
اسلام آباد: مجموعی طور پر 62 مقدمات درج، 15 میں ضمانت ملنا باقی ہے۔