پاکستان دفتر خارجہ کی ترجمان ممتاز زہرہ بلوچ نے تصدیق کی ہے کہ پاکستان نے افغانستان میں انٹیلی جنس کی بنیاد پر آپریشن کیا ہے کیونکہ وہاں سے پاکستانی شہریوں کو تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) اور دیگر دہشت گردوں سے خطرہ تھا۔
پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں ممتاز زہرہ بلوچ نے پریس کانفرنس کے دوران کہا کہ پاکستان افغانستان کی خودمختاری کی عزت کرتا ہے اور افغانستان کے ساتھ مسائل پر ہمیشہ بات چیت کو ترجیح دیتا ہے۔
پاکستان کے ایک سینئر سیکیورٹی اہلکار نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا تھا کہ پاکستان نے جیٹ طیاروں اور ڈرونز کے ذریعے افغانستان میں دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا اور دعویٰ کیا کہ حملے میں کم از کم 20 عسکریت پسند مارے گئے ہیں۔
یاد رہے کہ اس سے پہلے افغان طالبان کی حکومت نے حملوں کی تصدیق کی تھی۔ پچھلے دنوں ہی افغانستان کی وزارت دفاع نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر بیان جاری کیا تھا کہ ’پاکستانی فوج نے منگل کی رات افغانستان کے صوبہ پکتیکا میں فضائی حملے کیے اور سویلین آبادی کو نشانہ بنایا جس کے نتیجے میں خواتین سمیت کئی افراد ہلاک اور زخمی ہوئے ہیں‘۔
الجزیرہ کے ذرائع کے مطابق یہ حملے افغانستان کے ضلع برمل میں کیے گئے، جو پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع جنوبی وزیرستان کے قریب ہے۔
افغانستان کی وزارت دفاع کے ترجمان عنایت اللہ خوارزامی نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر لکھا کہ ’پاکستانی کو سمجھنا چاہیے کہ اس طرح کے اقدامات کسی مسئلے کا حل نہیں ہیں۔ ہم اس بزدلانہ کارروائی کا جواب دیں گے‘۔
یہ پہلی بار نہیں کہ پاکستان کی جانب سے افغانستان میں کارروائی کی گئی ہو۔ اس سے پہلے مارچ میں بھی پاک فوج نے افغانستان میں ایسی ہی کارروائیاں کی تھیں۔
پاکستان اکثر افغان حکومت پر مسلح گروپس، خاص طور پر تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کو پناہ دینے کا الزام لگاتا رہا ہے، پاکستانی فوج کا دعویٰ ہے کہ ٹی ٹی پی سیکیورٹی اہلکاروں پر سرحد پار سے حملے کرتے ہیں۔
پچھلے ہفتے ٹی ٹی پی نے ملک میں ایک دہشت گرد حملے کی ذمہ داری قبول کی تھی، جس میں جنوبی وزیرستان میں کم از کم 16 پاکستانی فوجی ہلاک ہوئے تھے۔
دوسری جانب افغان طالبان دہشت گرد گروپس کو پناہ دینے یا اپنی سرزمین کو سرحد پار حملوں کے لیے استعمال کرنے کی اجازت دینے سے کیا ہے۔ تاہم پاکستان کا دعویٰ ہے کہ ٹی ٹی پی اپنی کارروائیاں افغانستان میں محفوظ پناہ گاہوں سے کررہا ہے۔
پچھلے ہفتے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی بریفنگ کے دوران پاکستانی سفارت کار عثمان اقبال جدون نے کہا تھا کہ ’ٹی ٹی پی میں 6 ہزار فائٹرز ہیں جو افغانستان سے آپریٹ ہونے والی سب سے بڑی دہشت گرد تنظیم ہے۔ پاکستان کی سرحد کے قریب اس کی محفوظ پناہ گاہیں ہمارے ملک کی سلامتی کے لیے بڑا خطرہ ہے‘۔
پاکستان حکومت نے جون میں عزمِ استحکام کے نام سے ایک فوجی آپریشن شروع کیا تھا۔ سیکیورٹی تجزیہ کار عامر رانا کا خیال ہے کہ افغانستان میں حالیہ فضائی حملے شاید اسی آپریشن کا حصہ ہیں۔
جبکہ سیکیورٹی تجزیہ کار اور صحافی احسان اللہ ٹیپو نے الجزیرہ کو بتایا کہ پاکستان نے حالیہ برسوں میں افغانستان میں ٹی ٹی پی کے ٹھکانوں پر کم از کم 4 فضائی حملے کیے ہیں۔
انہوں یہ بھی کہا کہ افغان طالبان نے پہلے ہی حملوں کا جواب دینے کا اعلان کیا ہے لیکن ہوسکتا ہے کہ ٹی ٹی پی بھی جوابی کارروائی کرے۔ پاکستان اکثر افغان حکومت پر ٹی ٹی پی اور دیگر دہشت گرد گروپس کو پناہ دینے کا الزام لگاتا رہا ہے۔
پاکستان میں دہشت گرد حملوں میں اضافہ
کچھ اعدادوشمار کی بات کریں تو حالیہ مہینوں میں پاکستان خاص طور پر صوبہ خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں دہشت گرد حملوں میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔
پاکستان کی وزارت داخلہ کی رپورٹ کے مطابق اس سال کے پہلے 10 مہینوں میں 1500 سے زیادہ پرتشدد واقعات کے نتیجے میں کم از کم 924 اموات ہوئیں، جن میں 570 قانون نافذ کرنے والے اہلکار اور 351 شہری شامل ہیں۔
اسلام آباد میں قائم ایک تحقیقی ادارے پاکستان انسٹی ٹیوٹ فار کانفلیکٹ اینڈ سیکیورٹی اسٹڈیز (پی آئی سی ایس ایس) کے مطابق 2024 میں اب تک 856 سے زیادہ حملے ہوئے، جو 2023 میں ریکارڈ کیے گئے 645 حملوں سے کئی گناہ زیادہ ہے۔