اپریل میں انقرہ اور واشنگٹن کے درمیان سفارتی تعلقات بہتر ہونے لگے تھے۔ مثال کے طور پر دونوں ممالک کے رہنماوٴں کے درمیان سویڈن کی نیٹو میں شمولیت اور ایف 16 لڑاکا طیاروں سے متعلق بات چیت ہوئی تھی۔ دونوں ممالک کے حکام شام میں دہشت گرد گروہوں کے مستقبل پر بھی بات چیت کر رہے تھے۔ یہ مثبت پیش رفت ترک صدر رجب طیب اردوان اور امریکی صدر جوبائیڈن کے درمیان اہم ملاقات کی طرف بڑھ رہی تھی جو مئی میں وائٹ ہاؤس میں طے تھی۔
مگر انقرہ نے بائیڈن کی ٹیم کو اطلاع دی کہ شیڈول میں کچھ مسائل کی وجہ سے وہ امریکہ کا دورہ نہیں کرسکیں گے۔ جواب میں بائیڈن حکومت نے انقرہ سے نئی تاریخیں مانگیں۔ جولائی میں امریکہ میں نیٹو سمٹ ہونی تھی اور اس کے بعد بائیڈن کی انتخابی مہم کا سلسلہ تیز ہوجاتا اس لیے امریکا نے یہ خواہش ظاہر کی کہ ملاقات جولائی سے پہلے ہو جائے پھر بھی ترکیہ نے فائنل ٹائم لائن نہیں دی۔ ترکیہ کا اندازہ تھا کہ ٹرمپ کے الیکشن جیتنے کے چانسز زیادہ ہیں۔
یہ اندازے صرف توقعات نہیں بلکہ انقرہ کی ترجیح بھی تھی۔ تعلقات میں اُتار چڑھاؤ کے باوجود اردوان اور ٹرمپ میں قریبی تعلقات ہیں، یہی نہیں بلکہ دونوں کے پاس ایک دوسرے کے پرسنل فون نمبرز ہیں۔ اس کے علاوہ ٹرمپ انقرہ کے ساتھ امریکہ کے تعلقات کو بائیڈن کے مقابلے میں مختلف نظر سے دیکھتے ہیں۔ ڈیموکریٹس کے پاس مسائل کی ایک لمبی فہرست تھی جبکہ ٹرمپ کردستان ورکرز پارٹی (پی کے کے) اور ایس 400 جیسے معاملات کو بوجھ سمجھتے ہیں۔ مختصراً غزہ کے بارے میں بائیڈن کے مؤقف اور ڈیموکریٹس کی ممکنہ ہار کے بعد انقرہ ممکنہ طور پر مزید سفارتی مصروفیات سے پہلے انتخابی نتائج کا انتظار کررہے تھے۔
انقرہ نے بائیڈن کی ٹیم سے تعلقات اچھے رکھے مگر اصل امیدیں ٹرمپ سے لگا لی تھیں۔ اس تاثر کو جولائی کے مہینے میں واشنگٹن میں نیٹو سمٹ کے دوران ترک وزیرخارجہ حقان فیدان کی رچرڈ گرینیل سے خفیہ ملاقات (گرینیل سے متعلق افواہیں ہیں کہ ٹرمپ انہیں وزیرخارجہ بنانے والے ہیں) نے مزید مضبوط کیا۔ ٹرمپ کی کامیابی سے متعلق ترکیہ کی پیشگوئی بالکل درست ثابت ہوئی۔ صدر اردوان نے ٹرمپ کو ’میرے دوست ٹرمپ‘ کہہ کر مبارک باد دی اور دونوں نے فون پر بات کی۔ اب سوال یہ ہے کہ آگے کیا ہوگا؟
ٹرمپ کے دور میں ترکیہ چار بڑی پیش رفت کی توقع کرسکتا ہے، کچھ اس کے حق میں ہیں جبکہ کچھ مشکلات پیدا کرسکتی ہیں۔
پہلی بات یہ ہے کہ امریکہ کے کردستان ورکرز پارٹی (پی کے کے) سے تعلقات پہلے ہی موضوع بحث تھے۔ میں نے پہلے یہ نکتہ اٹھایا تھا کہ اگر کملا ہیرس جیت گئیں تو پی کے کے کو امریکی امداد کو کم کرنے یا ختم کرنے کے عمل میں کافی وقت لگے گا لیکن ٹرمپ جیتے تو یہ عمل تیزی سے ہوگا۔ ٹرمپ کی ٹیم نے الیکشن سے پہلے خارجہ پالیسی پر بات کرتے ہوئے واضح طورپر یہ بات کہی تھی کہ کردستان ورکرز پارٹی (پی کے کے) یا وائے پی جی کے دہشتگردوں کی حمایت کی پالیسی پر دوبارہ غور کیا جائے گا۔ مگر شام میں دہشت گردوں کی موجودگی برقرار رکھنے کے لیے سینٹ کام (امریکی فوج کی سینٹرل کمانڈ) صدر پر دباؤ ڈال سکتی ہے، ہوسکتا ہے ایسا کسی نئے نام یا بھیس میں ہو، ممکن ہے کہ مقامی الیکشن کے ذریعے انہیں سیاسی شناخت دے دی جائے، مگر دیکھنا ہوگا کہ یہ کیسے ہوگا۔
دوسری اہم بات ٹرمپ کی یوکرین پالیسی ہے جو کچھ یوں ہے کہ یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی پر روس سے مذاکرات کے لیے دباؤ ڈالا جائے گا اور آئندہ امریکی امداد کو امن مذاکرات میں یوکرین کی شرکت سے مشروط کردیا جائے گا۔ مذاکرات موجودہ جنگی لائنوں کی بنیاد پر ہوں گے۔ اس پیش رفت کا اثر ترکیہ پر مثبت ہوگا، روس سے تعلقات کی وجہ سے پابندیوں کا دباؤ کم ہوجائے گا۔ وزیرخارجہ فیدان نے پہلے کہا تھا کہ ’ہمارا مقصد کاٹسا ( یہ امریکی مخالف ممالک پر پابندی لگانے کا ایکٹ ہے) سے باہر نکلنا ہے اور ہم اس کے لیے منفرد حل پر کام کررہے ہیں ۔‘ اگرچہ یہ ایک مثبت پیش رفت ہے، لیکن ماسکو کے ساتھ امریکہ کے تعلقات کو معمول پر لانے سے شام میں روس کے ساتھ زیادہ جارحیت بڑھ سکتی ہے، جس سے ترکیہ کے لیے نئے چیلنجز پیدا ہو سکتے ہیں۔
تیسری بات یہ ہے کہ یورپی یونین ٹرمپ کے صدر بننے کے لیے ایک سال سے انتظار کررہے ہیں، تاکہ اسٹرٹیجک خودمختاری حاصل کرسکے۔ پلان میں دفاعی صنعت کو مضبوط بنانے، نئی جوہری دفاعی حکمت عملی تیار کرنے اور متحد فوجی کمانڈ اسٹرکچر کی تشکیل شامل ہیں۔ اس مشکل مرحلے میں برسلز چاہتا ہے کہ ترکیہ اُس کا ساتھ دے۔ یورپی اسکائی شیلڈ پراجیکٹ سے لے کر یورو فائٹر تک، پابندیوں کے خاتمے سے لے کر ایتھنز کے ساتھ نرمی کے تعلقات تک، پچھلے سال میں جو کچھ ہوا، اس بات کا اشارہ ہے کہ ترکیہ کا اثرورسوخ بڑھ رہا ہے۔
چوتھا، ٹرمپ نے ’سرکل الائنس‘ تشکیل دیا جس کا مقصد گلف ممالک کو اسرائیل کے قریب لانا، تل ابیب کی حفاظت اور ایران کو محدود کرنا ہے۔ بائیڈن نے یہ پالیسی معمولی تبدیلی کے ساتھ جاری رکھی تھی۔ اسرائیل نے 7اکتوبر کے واقعات کو بہانہ بناتے ہوئے جو سٹرٹیجی اختیار کی اس میں غزہ پر قبضے کی کوشش، لبنان اور شام میں بفرزون بنانا، ایران کو شام سے باہر نکالنا، اور ایران کی ایٹمی صلاحیت کو ختم کرنا شامل ہے۔ ٹرمپ کی جانب سے 2020 میں قاسم سلیمانی کے قتل کے احکامات ایران کو شام سے باہر نکالنے کی کوششوں کا آغاز تھے۔ اگرچہ ٹرمپ نے کہا ہے کہ وہ جنگ ختم کریں گے مگر اس امن کی نوعیت ابھی واضح نہیں ہے۔ امکان ہے کہ ٹرمپ اسرائیل کے لیے حمایت کا سلسلہ وہیں سے جوڑیں گے جہاں سے ٹوٹا تھا۔ نیتن یاہو نے اہم موقع پر وزیر دفاع گیلینٹ کو ہٹادیا جو اعتدال پسند اور بائیڈن حکومت کے قریبی سمجھے جاتے ہیں۔ امریکی الیکشن سے ذرا پہلے ان کی جگہ سخت مؤقف رکھنے والے وزیر خارجہ اسرائیل کاٹز کو وزیر دفاع بنانا سب کچھ واضح کررہا ہے۔ (مجھے یقین ہے ایک دن امریکہ نیتن یاہو کی وجہ سے بڑا نقصان اٹھائے گا اور پچھتائے گا، یقیناً ٹرمپ ہی ایسا کریں گے مگر یہ کہانی پھر سہی)
ٹرمپ کے دور کے بارے میں کہنے کے لیے تو بہت کچھ ہے مگر فی الحال اس خیال پر بات ختم کرتے ہیں کہ بڑے فیصلوں سے پہلے اردوان اور ٹرمپ کی ملاقات کا امکان ہے۔ وہ ملاقات جو بائیڈن سے ہوتے ہوتے رہ گئی جلد ٹرمپ کے ساتھ دوبارہ طے پاسکتی ہے۔
BIST کا نام اور لوگو "محفوظ ٹریڈ مارک سرٹیفکیٹ" کے تحت محفوظ ہیں اور بغیر اجازت کے استعمال، حوالہ یا تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔ BIST کے نام سے ظاہر کردہ معلومات کے تمام حقوق مکمل طور پر BIST کی ملکیت ہیں اور اسے دوبارہ شائع نہیں کیا جا سکتا۔ مارکیٹ کا ڈیٹا iDealdata Financial Technologies Inc کے ذریعے فراہم کیا جاتا ہے۔ BIST اسٹاک ڈیٹا میں 15 منٹ کی تاخیر ہوتی ہے۔