پاکستان کے صوبہ خیبرپختونخوا کے ضلع کرم میں فرقہ وارانہ لڑائیوں اور پُرتشدد واقعات میں ہلاکتوں کی تعداد 110 سے زیادہ ہوگئی جبکہ 120 سے زیادہ لوگ زخمی ہیں۔
تازہ ترین واقعات اپر اور لوئر کرم میں ہوئے جہاں وقفے وقفے سے گروہوں کے درمیان فائرنگ کا سلسلہ جاری ہے، اٹھائیس نومبر کو 12 لوگ ہلاک اور 18 زخمی ہوئے۔
ضلع میں موبائل اور انٹرنیٹ سروس کئی روز سے بند ہے جبکہ علاقے کی مرکزی شاہراہیں اور تعلیمی ادارے بھی بند ہیں۔
ضلع کرم میں فرقہ وارانہ کارروائیوں کا یہ سلسلہ کئی عرصے یہ جاری ہے لیکن حالیہ دنوں میں اپر کرم کے علاقے پاڑہ چنار میں ان واقعات میں بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے جس سے شہریوں میں خوف و ہراس پھیل گیا ہے۔
معاملہ کو حل کرنے کے لیے وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا کے انفارمیشن ایڈوائزر بیرسٹر سیف نے دعویٰ کیا تھا کہ سُنی اور شیعہ قبیلوں کے درمیان لاشوں اور قیدیوں کو واپس کرنے کے علاوہ 7 روزہ سیز فائر پر اتفاق کیا ہے۔
لیکن اس اعلان کے باوجود گروہوں میں مختلف مقامات پر لڑائی کا سلسلہ اب بھی جاری ہے۔
پہلا واقعہ 21 نومبر کو پیش آیا جب پشاور سے پاڑہ چنار جانے والی مسافر گاڑیوں پر اچانک نامعلوم لوگوں نے فائرنگ کر دی تھی۔ اس واقعے میں خواتین سمیت 44 افراد ہلاک، 32 زخمی ہوئے تھے۔ ڈپٹی کمشنر کے مطابق گاڑیوں میں شعیہ زائرین سوار تھے۔
بی بی سی ایک صحافی اعظم خان کے مطابق ان مسافروں کی حفاظت کے لیے پولیس کی ایک گاڑی ساتھ جارہی تھی جس میں قریب سات پولیس اہلکار موجود تھے۔
انہوں نے یہ بھی بتایا کہ جس راستے پر حالات کشیدہ ہیں وہاں مسافروں کی حفاظت کے لیے جو وعدے کیے گئے تھے ان پر عمل درآمد نہیں کیا گیا۔
یاد رہے کہ یہ حملہ جس علاقے میں ہوا وہاں سنی اور شیعہ کمیونٹی کے درمیان لڑائی اور زمینی تنازعات کی تاریخ بہت پرانی ہے۔
ڈان کے ذرائع کے مطابق یہ حملہ 12 اکتوبر کو ہونے والے حملے کا بدلہ لگتا ہے جس میں دو خواتین اور ایک بچے سمیت 15 افراد ہلاک ہوئے تھے۔
اس واقعے کے بعد پاڑہ چنار میں احتجاجی مظاہرے ہوئے، مختلف علاقوں میں توڑ پھوڑ اور جلاوٴ گھیراوٴ کی فوٹیجز بھی سوشل میڈیا پر وائرل ہوتی رہیں۔
کہا جارہا تھا کہ مسافر گاڑیوں میں فائرنگ کے واقعے کے بعد مقامی شہریوں میں شدید غم اور غصہ پایا جاتا ہے، جس کی وجہ سے علیزئی اور بگن سمیت مختلف قبیلوں کے افراد کے درمیان شدید فائرنگ ہوئی۔ جس کے نتیے میں مزید 32 افراد ہلاک ہوئے۔
ان لڑائیوں کی کیا وجہ ہوسکتی ہے؟
ضلع کرم میں کئی سالوں سے سنی اور شیعہ کمیونٹی کے درمیان لڑائی چل رہی ہے، جس کی زیادہ تر وجہ وہاں مختلف قبیلوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں کے درمیان زمین کی ملکیت ہے۔
یہ بھی افواہیں ہیں کہ کالعدم دہشت گرد گروپ ٹی ٹی پی بھی اس لڑائی میں ملوث ہے جس کی وجہ سے عام شہری پریشان ہیں۔ لیکن سرکاری حکام نے فرقہ وارانہ لڑائیوں کو نظر انداز کرکے اس واقعے کو صرف زمین کے تنازع سے جوڑا ہے۔
تاہم کرم پرتشدد واقعات پر اب تک کسی گروپ نے ذمہ داری قبول نہیں کی۔
حکومت نے اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے ایک لینڈ کمیشن قائم کیا تھا۔ اگرچہ کمیشن نے فائنل رپورٹ شئیر کرلی تھی، لیکن حکومت نے یہ کہتے ہوئے رپورٹ کو پبلک نہیں کیا کہ یہ حساس معاملہ ہے۔
ضلع کرم کی اسٹریٹجک اہمیت کیا ہے؟
پاکستان کی نارتھ ویسٹ سرحد پر واقع ضلع کرم کا جغرافیہ اور اس کی آبادی اسے منفرد بناتے ہیں۔ یہ پاکستان کا واحد قبائلی ضلع ہے جہاں کی آبادی کا زیادہ تر تعلق شعیہ کمیونٹی سے ہے۔
صوبے خیبرپختونخوا کا ضلع کرم تقریباً 3380 اسکوائر کلومیٹر پر پھیلا ہوا ہے۔ اس ضلع کی سرحد افغانستان سے تین طرف سے جڑی ہے اور اس کی آبادی تقریباً 615,372 ہے۔
اس کے منفرد نقشے کی وجہ سے اسے ’طوطے کی چونچ‘ کہا جاتا تھا۔
یہ کابل سے قریب ترین یعنی صرف 60 میل دور ہے۔
یہ ڈسٹرکٹ تین حصوں میں تقسیم ہے؛ اَپر کرم، سینٹرل کرم اور لوئر کرم، پاڑہ چنار اپر کرم میں ہے۔
پاکستان کے دیگر علاقوں سے اپر کرم یا پاڑہ چنار صرف ایک ہی راستے سے جایا جاسکتا ہے۔ یعنی صرف ایک ہی مرکزی سڑک ہے جو پاڑہ چنار سے ملتی ہے۔ جہاں پرتشدد واقعات ہورہے ہیں۔
اس ضلع سے افغانستان کے وہ علاقے ملتے ہیں جو شدت پسند تنظیموں داعش اور ٹی ٹی پی کا گڑھ سمجھے جاتے ہیں۔