سانحہ اے پی ایس کو 10 سال مکمل، ’اس حملے سے کسی کو کچھ حاصل نہیں ہوا سوائے درد کے‘

09:2116/12/2024, Pazartesi
جنرل17/12/2024, Salı
ویب ڈیسک
اے پی ایس سانحے کو دس سال مکمل ہوگئے ہیں
اے پی ایس سانحے کو دس سال مکمل ہوگئے ہیں

پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا کے دارالحکومت پشاور میں آرمی پبلک سکول (اے پی ایس) پر دہشت گردوں کے حملے کو 10 سال پورے ہوگئے ہیں لیکن متاثرین اور لواحقین کے لیے یہ جیسے کل ہی کا واقعہ ہو۔

اس واقعے میں ہلاک ہونے طلبا کے والدین اور بچ جانے والے طلبا کے لیے یہ ایک نہ ختم ہوالا ٹرامہ بن گیا ہے اور متاثرین واقعے کے بعد ذہنی مسائل کا شکار نظر آئے۔

یاد رہے کہ 16 دسمبر 2014 کو کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے شدت پسندوں نے حملہ کردیا تھا جس میں 132 بچوں سمیت 150 سے زائد افراد ہلاک ہوئے تھے۔ قریب 6 دہشت گرد سکول کی دیوار پھلانگ کر سکول کے ہال اور کلاس رومز میں داخل ہوئے جہاں طلبہ موجود تھے۔ دہشت گردوں نے طلبہ اور اساتذہ پر گولیاں چلانا شروع کیں اور اس دوران بم دھماکے بھی کیے۔ یہ حملہ کئی گھنٹوں تک چلتا رہا۔ اور پھر سیکیورٹی فورسز نے دہشت گردوں کا گھیراؤ کیا اور کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے چھ خودکش حملہ آوروں کو طویل آپریشن کے بعد ہلاک کردیا۔



واقعے کو 10 سال مکمل ہونے پر پنجاب اور اسلام آباد انتظامیہ نے آج پبلک اور پرائیویٹ تعلیمی ادارے بند رکھنے کا اعلان کیا ہے۔

پاکستان کے وزیر اعظم شہباز شریف نے ایک بیان میں کہا کہ ’ہم ایک ایسا محفوظ اور پرامن پاکستان بنانا چاہتے ہیں جہاں کسی بھی معصوم شخص کو نقصان نہ پہنچایا جائے اور ناانصافی نہ ہو، یہ ہم سب کی ذمہ داری ہے۔ ہم سانحہ اے پی ایس کو نہ ہی بھولے ہیں اور نہ ہی معاف کریں گے، ہم دہشتگردی کے خلاف جنگ جاری رکھیں گے۔ ‘

صدرِ پاکستان آصف علی زرداری نے اپنے بیان میں کہا کہ ’یہ دن ہمیں دہشت گردی کے خلاف ایک ہونے کا سبق دیتا ہے۔ پاکستانی قوم نے ہمیشہ مصیبتوں کا سامنا بہادری سے کیا ہے۔‘



حملے کے بعد کیا پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات کم ہوئے؟

آرمی پبلک سکول پر حملے کے بعد نیشنل ایکشن پلان کی صورت میں ایک 20 نکات پر مبنی منصوبہ بنایا گیا تھا جس میں دہشت گرد تنظیموں کے خاتمے، نفرت انگیز مواد کے خلاف کارروائی اور دہشت گردوں کے سہولت کار گروپس کے خاتمے جیسے اقدامات شامل کیے تھے۔

پلان کے تحت قبائلی علاقوں میں کئی فوجی آپریشنز شروع کیے گئے جن میں آپریشن ضرب عضب اور ردالفساد بھی شامل ہے تاکہ دہشتگردی کا خاتمہ کیا جا سکے۔ آرمی پبلک اسکول حملے میں ملوث 6 دہشتگردوں کو سیکیورٹی فورسز نے گرفتار کیا جنہیں ملٹری کورٹس نے موت کی سزائیں سنائی۔

اس کے علاوہ نیشنل ایکشن پلان کے تحت آئین میں تبدیلی کرکے فوجی عدالتیں بنائی گئی۔ وائس آف امریکہ کی ایک رپورٹ کے مطابق فوجی عدالتیں قائم کرنے کا مقصد یہ تھا کہ دہشت گردی کے مقدمات میں عام عدالتوں میں ٹرائل کے دوران بعض اوقات ججوں اور وکلا کو دھکمیوں کا سامنا کرنا پڑتا تھا اور سیکڑوں کی تعداد میں کیسز زیر التوا تھے۔ اسی مقصد کے لیے پاکستان پیپلز پارٹی سمیت بعض جماعتوں کے تحفظات کے باوجود فوجی عدالتوں کے قیام کی منظوری دی گئی۔

اے پی ایس واقعے کو دس سال گزر جانے کے بعد آج بھی صوبہ خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) سمیت دیگر دہشت گرد گروپسں کے حملے جاری ہیں۔ افغانستان میں افغان طالبان کے اقتدار سنبھالنے کے بعد ٹی ٹی پی کو دوبارہ طاقت ملی ہے جس سے پاکستان میں دہشتگردی کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔

پاکستان نے افغانستان پر یہ الزام لگایا ہے کہ وہ ٹی ٹی پی کو چھپنے کی جگہیں فراہم کر رہا ہے، لیکن افغان حکومت نے اس الزام کو مسترد کیا ہے۔

آرمی پبلک اسکول سانحے میں ہلاک ہونے والوں کے خاندانوں نے کئی بار یہ مطالبہ کیا ہے کہ نیشنل ایکشن پلان پر مکمل عملدرآمد کیا جائے۔

جب کہ ماہرین کے مطابق شدت پسندی اور دہشت گردی کومکمل ختم کرنے کے لیے کئی دہائیاں چاہیئے ہوں گی لیکن اس کے لیے ریاست کو سنجیدگی دکھانی ہوگی۔

کے مطابق سیاسی ماہرین کا کہنا ہے کہ افسوسناک بات یہ ہے کہ حکومت کی ترجیحات میں دہشتگردی کو ختم کرنے کے بجائے سیاسی مخالفین کو دبانے پر زیادہ توجہ دی گئی ہے جس کو تبدیل کرنا ضروری ہے تاکہ پشاور جیسے المناک واقعات دوبارہ نہ ہوں۔

رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ نیشنل ایکشن پلان کو مکمل طور پر عمل میں لانے کے لیے مزید ٹھوس اقدامات کی ضرورت ہے تاکہ دہشت گردی کو مکمل طور پر ختم کیا جاسکے۔

ماہر نفسیات ڈاکٹر حنا پاشا نے ڈان ڈاٹ کام سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’اس حملے سے کسی کو کچھ حاصل نہیں ہوا سوائے درد کے۔ ہر کوئی یہ بات جانتا ہے کہ کمزور ترین حصے کو نشانہ بنایا گیا ہے‘۔




#دہشتگردی
#پاکستان
#پاک فوج
#اے پی ایس