’وہ گاوٴں کی کچی سڑکوں پر کھیلتا تھا، خدا اسے اولمپکس میں لے گیا‘
یہ الفاظ ہیں پاکستان کے اسٹار ایتھلیٹ اور جیولن تھرور ارشد ندیم کے بھائی شاہد ندیم کے جہاں انہوں نے ایک نجی میڈیا سے فون پر گفتگو کرتے ہوئے اپنے جذبات کا اظہار کیا۔
پیرس گیمز میں جمعرات کو ارشد ندیم نے 92.97 میٹر جیولن تھرو کرکے اولمپک ریکارڈ قائم کیا اور 40 سال کے طویل عرصے بعد پاکستان کے لیے گولڈ میڈل جیتا اور وہ اولمپک کے انفرادی مقابلے میں سونے کا تمغہ جیتنے والے پہلے پاکستانی بنے۔
ارشد ندیم کو یہاں تک پہنچنے کے لیے کئی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، ایک غریب مزدور کے بیٹے، جن کے پاس جیولن تھرو خریدنے کے پیسے تک نہیں تھے، آج انہوں نے بغیر کسی حکومتی سپورٹ اور صرف اپنی محنت کے ذریعے پوری دنیا میں نام کمایا۔
پنجاب کے ایک چھوٹے کے گاوٴں سے تعلق رکھنے والے اسٹار کھلاڑی کے بھائی نے فون پر بتایا کہ ’ہمارے گاوٴں کے قریب ہسپتال، کھیل کے لیے گراوٴنڈ یا جم نہیں ہے۔ سہولیات نہ ہونے کے باوجود ارشد نے خود سے سونے کا تمغہ حاصل کیا۔ لاکھوں لوگوں میں خدا نے صرف اسے چنا‘۔
شاہد ندیم کہتے ہیں کہ ’خدا نے اسے صرف جسمانی طاقت دی تھی۔ اس لیے وہ آگے بڑھا۔ اس نے صرف اپنی اس طاقت کا استعمال کیا۔‘
انڈین ایتھلیٹ نیرج چوپڑا سے متعلق ایک سوال پر بات کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ ’نیرج چوپڑا بھی ہمارے بھائی ہیں۔ انہوں نے بہت اچھی تھرو کی لیکن اس وقت ارشد کا دن تھا۔ ہار جیت کھیل کا حصہ ہے۔ ہمیں خوشی ہے ایشیا کے دو کھلاڑیوں نے ٹاپ پوزیشن حاصل کی‘۔
لیکن کیا پاکستان میں اور کوئی ارشد ندیم جیسا بن سکتا ہے؟ اس حوالے سے پیرس گیمز سے پہلے ارشد ندیم کے والد نے ڈان سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’ہاں، اس کے گھر میں دو چھوٹے بچے مستقبل کے ارشد ندیم ہیں‘۔
اب یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ارشد جیسے چیمپئن کے لیے پاکستان کو مزید 32 سال کا انتظار کرنا پڑے گا؟ کیا ارشد کی متاثر کن جدوجہد سے مستقبل کے کھلاڑی کوئی سبق سیکھے گے یا چند دنوں کے بعد اسے بھلا دیا جائے گا؟ کیا اب جو بڑے بڑے وعدے کیے جا رہے ہیں کیا وہ واقعی پورے ہوں گے؟ ان سوالوں کا تسلی بخش جواب دینے کے لیے اس سے بہتر کوئی وقت نہیں جب پوری دنیا کی نظریں اولمپکس پر مرکوز ہیں۔
’یہ خیال کہ حکومت نے ان کی مدد نہیں کی، یہ غلط ہے‘
پاکستان اسپورٹس بورڈ کے ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل شاہد اسلام نے وی او اے کو بتایا کہ ارشد ندیم کی فتح کے بعد لوگ یہ کہہ رہے ہیں کہ حکومت نے ارشد ندیم مالی مدد نہیں کی۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ حکومت نے ارشد ندیم کو گھٹنے کے علاج اور انعام رقم کے لیے 2019 سے لے کر اب تک 80 ہزار ڈالرز سے زیادہ دیے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ’میں اس بات سے اتفاق کرتا ہوں کہ ارشد ایک عظیم کھلاڑی ہے، انہیں اس سے بھی زیادہ انعامی رقم ملنی چاہیے لیکن یہ خیال کہ حکومت نے ان کی مدد نہیں کی، یہ غلط ہے۔‘
انہوں نے دعویٰ کیا کہ حکومت نے ہی ارشد کی کِٹ اور اس کے غیر ملکی سفر اور رہائش کا بندوبست کیا تھا۔