ارشد ندیم کا تعلق پاکستان کے صوبہ پنجاب کے چھوٹے شہر میاں چنوں کے نواحی گاؤں چک نمبر 101-15 ایل سے ہے جو لاہور سے 250 کلومیٹر دور ہے۔ ان کی تاریخ پیدائش 2 جنوری 1997 ہے۔ ارشد سات بہن بھائیوں میں تیسرے نمبر پر ہیں۔
ان کے والد محمد اشرف مزدوری کرتے ہیں اور گھر کے واحد کمانے والے ہیں۔
ارشد کا خاندان معاشی طور پر مضبوط نہیں ہے جس کی وجہ سے انہیں اپنے کریئر کے ابتدائی دنوں میں کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ ایک موقع پر ارشد ندیم کے والد نے کہا تھا کہ ’لوگوں کو نہیں معلوم کہ ارشد آج اس مقام پر کیسے پہنچا۔ کس طرح اس کے ساتھی گاؤں والے اور رشتہ دار پیسے دیتے تھے تاکہ وہ اپنی ایونٹ میں جانے اور ٹریننگ کے لیے دوسرے شہروں کا سفر کر سکے۔‘
کئی میڈیا رپورٹس میں یہ بھی بتایا گیا کہ ارشد ندیم کے ابتدائی دنوں میں ان کے پاس جیولن خریدنے کے بھی پیسے نہیں تھے۔ اس دوران انڈین ایتھلیٹ نیرج چوپڑا نے انہیں پروفیشنل جیولن خریدنے میں مدد کی تھی۔
ارشد کو اپنے اسکول کے دنوں سے ہی اسپورٹس میں بے حد دلچسپی تھی۔ وہ اپنے ابتدائی دنوں میں کرکٹ، بیڈمنٹن، فٹبال بھی کھیل چکے ہیں۔
بعدازاں جیولن تھرو میں ان کی دلچسپی دیکھ کر کوچ 66 سالہ سلمان اقبال بٹ نے ان کی ٹریننگ کی ذمہ داری لی۔ ان کے کوچ خود بھی قومی سطح پر بہترین تھرور مانے جاتے ہیں۔
1989 اور 1991 میں ساؤتھ ایشین گیمز میں دو بار چاندی کا تمغہ جیتنے والے کوچ سلمان اقبال بٹ نے کہا کہ انہوں نے خود جن دہائیوں میں مقابلہ کیا تب حالات بہتر تھے کیونکہ کھلاڑیوں کے لیے وسائل زیادہ تھے۔
انہوں نے مزید کہا کہ پچھلے ہفتے ارشد کو اپنے دائیں گھٹنے میں کچھ درد محسوس ہوا، اس لیے ہم اسے اگلے چند دنوں کے لیے ہلکی ٹریننگ دی، جہاں وہ صرف جسم کی حرکت اور وزن پر توجہ دے رہے تھے۔
انہوں نے کہا کہ ارشد کو کوئی انجری ہوتی ہے تو وہ اس سے بہت جلدی باہر نکل جاتا ہے لیکن اس دوران وہ بہت زیادہ پانی پیتا ہے وہ صبح کے تین گھنٹے اور شام کے تین گھنٹے تک ٹریننگ کرتے ہیں اور جب موسم شدید گرم ہو تو آرام کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پریکٹس کے دوران اگر باہر جلتی ہوئی دھوپ بھی ہو تو ٹریننگ کے سوال کوئی چارہ نہیں ہوتا۔ ندیم ان حالات کے عادی تھے۔
’اگر کرکٹر ہوتا تو شعیب اختر کی طرح مشہور ہوتا‘
ارشد ندیم کے بڑے بھائی 32 سالہ شاہد عظیم نے بتایا کہ ان کی فیملی کو پورے سال میں صرف ایک بار گوشت کھانے کو ملتا ہے اور وہ بھی عید الاضحی کے موقع پر۔ انہوں نے الجزیرہ کو بتایا کہ ’جب ہمیں دال اور سبزیوں کے علاوہ کچھ اور کھانے کو ملتا ہے وہ دن ہمارے لیے خوش قسمت ہوتا ہے‘۔
انہوں نے بتایا کہ ’ارشد کے لیے کرکٹ اس کا پہلا پیار تھا، وہ بہت اچھی باوٴلنگ کرواتا اور کئی ٹورنامنٹس میں بھی کھیل چکا تھا۔ ارشد پورے گاوٴں میں اپنی باوٴلنگ کے لیے مشہور تھا۔ اگر وہ آج کرکٹ میں ہوتا تو مجھے یقین ہے کہ وہ شعیب اختر کی طرح مشہور ہوتا۔‘
اس موقع پر ارشد ندیم نے کہا کہ ’میرے والد اور دو بھائی مجھے کرکٹ میں کریئر بنانے سے منع کرتے تھے۔‘۔
انہوں نے کہا کہ ’میرے والد کو کرکٹ کبھی پسند نہیں تھی۔ وہ کہتے تھے کہ ’میچ جیتنے کے لیے تم پوری محنت کروگے لیکن تمہارے ساتھی کرکٹرز سارا بوچھ تم پر رکھ دیں گے لیکن وہ خود پرفارم نہیں کریں گے‘۔
یاد رہے کہ پچھلے روز 27 سالہ نوجوان ایتھلیٹ ارشد ندیم نے دفاعی چیمپئن انڈیا کے نیرج چوپڑا کو شکست دی اور جیولن تھرو کا اولمپک ریکارڈ توڑ دیا۔
جیولن تھرو کے فائنل مقابلے میں ارشد ندیم نے 92.97 میٹر کی تھرو کرکے 2008 میں قائم کیا گیا اولمپک ریکارڈ توڑ دیا جو ناروے کے اینڈریاس تھورکلڈسن نے بنایا تھا۔ یہ دنیا میں اب تک پھینکی جانے والی چھٹی سب سے طویل جیولن تھرو تھی۔
پیرس اولمپکس 2024 میں یہ پاکستان کا 32 سال بعد پہلا اولمپک میڈل اور 40 سال بعد پہلا گولڈ میڈل ہے اور ارشد ندیم پاکستان کو انفرادی مقابلوں میں گولڈ میڈل دلوانے والے پہلے ایتھلیٹ ہیں۔
یاد رہے کہ پاکستان نے اس سے قبل آخری بار 1984 کے لاس اینجلس اولمپک گیمز میں صرف ہاکی میں گولڈ میڈل جیتا تھا۔