وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ ماضی میں موسمیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے کیے گئے وعدے ابھی تک پورے نہیں ہوئے ہیں۔ پاکستانی جیسے کم ترقی یافتہ ممالک کو موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے انٹرنیشنل سپورٹ کی ضرورت ہے۔
انہوں نے یہ بات اقوام متحدہ کے 29ویں موسمیاتی تبدیلی کانفرنس (کوپ 29) میں کہی جو آذربائیجان کے دارالحکومت باکو میں منعقد ہو رہی ہے۔ وزیراعظم نے پاکستان کا کیس ورلڈ لیڈرز کلائمٹ ایکشن سمٹ کے دوسرے اور آخری دن پیش کیا۔
انہوں نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کو کلائمیٹ مسائل کے اہداف کو پورا کرنے کے لیے انٹرنیشنل سپورٹ کی ضرورت ہے۔ کم ترقی یافتہ ممالک کو 2030 تک تقریباً 6.8 ٹریلین امریکی ڈالرز کی ضرورت ہوگی۔
شہباز شریف نے یہ بھی کہا کہ موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے رقم گرانٹ کی صورت میں ہونی چاہیے نہ کہ قرض کی صورت میں جو کمزور ممالک برداشت نہیں کرسکتے۔
یاد رہے کہ پاکستان عالمی موسمیاتی خطرے کے انڈیکس کے مطابق دنیا کے 10 سب سے زیادہ موسمیاتی تبدیلی سے متاثر ہونے والے ممالک میں شامل ہے۔ پاکستان میں بار بار اور شدید موسمیاتی واقعات جیسا کہ سیلاب، شدید مون سون کی بارشیں، ہیٹ ویوو، تیزی سے گلیشیئر کا پگھلنا اور گلیشیئر جھیلوں یعنی گلاف کے پھٹنے سے سیلاب آنا جیسے واقعات میں بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے۔
وزیراعظم شہباز نے کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ کوپ29 کو 'یہ سمجھنا چاہیے کہ ہمیں کوپ27 اور کوپ 28 میں کیے گئے مالی وعدوں کو پورا کرنا ہوگا۔'
وزیراعظم نے کہا کہ یہ ایونٹ 'ان مصیبتوں کو سمجھنے کے لیے ہے جن کا کچھ ممالک پہلے ہی سامنا کر چکے ہیں اور کچھ کو سامنا کرنا پڑے گا اگر ہم نے اس کو کم کرنے کے اقدامات نہ کیے تو۔'
2022 میں کوپ 27 میں پاکستان سمیت کئی ممالک نے موسمیاتی آفات سے متاثر ہونے والے غریب ممالک کی مدد کے لیے ’لاس اور ڈیمیج فنڈ‘ قائم کرنے کے لیے ایک معاہدے کو منظور کیا تھا۔
گزشتہ سال کوپ 28 کانفرنس میں، اُس وقت کے عبوری حکومت کے نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے موسمیاتی مالیات کے لیے 100 بلین ڈالر کے وعدوں پر فوری طور پرعمل درآمد کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔
اقوام متحدہ کے مطابق اب تک لاس اور ڈیمیج فنڈ کے لیے تقریباً 800 ملین ڈالر کا وعدہ کیا گیا ہے، جس میں فرانس، اٹلی، جرمنی اور متحدہ عرب امارات سب سے بڑے عطیہ دینے والے ملک ہیں۔
کوپ29 میں آج، وزیر اعظم شہباز نے 2022 کے تباہ کن مون سون سیلاب کے بارے میں بھی بات کی جس میں 1700 لوگ ہلاک ہوئے تھے اور بہت بڑے پیمانے پر لوگوں کو نقل مکانی کرنی پڑی ، گھر اور فصلیں تباہ ہوئیں اور پاکستان کی معیشت کو 30 بلین ڈالر سے بھی زیادہ کا نقصان ہوا تھا۔
انہوں نے انٹرنیشنل کمیونٹی سے اس بات کا مطالبہ کیا کہ 'موسمیاتی تبدیلی کا مقابلہ کرنے کے لیے اس وقت اس وقت انتہائی ضروری اقدامات کریں تاکہ غریب ممالک امیر ممالک کے کیے ہوئے کاموں کا خمیازہ نا بھگتیں۔‘
وزیراعظم نے اس بات پر زور دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان ان ممالک میں سے ایک ہے جو زہریلی گیسوں کو ہوا میں چھوڑنے میں مشکل سے آدھا فیصد حصہ ڈالتا ہے اور پھر بھی سب سے زیادہ نقصان ہمیں ہورہا ہے۔