پاکستان کی فوجی عدالتوں میں عام شہریوں کا مقدمہ چلانا قانونی ہے یا نہیں، سپریم کورٹ میں سماعت دوبارہ شروع ہوگئی ہے۔
جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں سات رکنی پینل اس متنازعہ معاملے کی سماعت کررہا ہے۔
یہ مقدمہ 9 مئی 2023 کے فسادات کے بعد شروع ہوا، جب پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے سپورٹرز نے سابق وزیراعظم عمران خان کی گرفتاری کے بعد فوجی تنصیبات کو نقصان پہنچایا تھا۔
ان فسادات میں لاہور کور کمانڈر کی رہائش گاہ کو نقصان پہنچایا گیا اور پاک فوج کی تنصیبات پر حملہ کیا گیا جس کے نتیجے میں سیکڑوں شہریوں کو گرفتار کیا گیا۔
حکومت نے آرمی ایکٹ اور آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت 102 مشتبہ افراد کا کیس فوجی عدالتوں میں چلانے کا فیصلہ کیا جس پر انسانی حقوق کے گروپوں اور اپوزیشن جماعتوں نے تنقید کی تھی۔
سال 2022 میں عدم اعتماد کے ووٹ کے ذریعے وزیراعظم کے عہدے سے ہٹائے جانے والے پی ٹی آئی کے بانی عمران خان کا دعویٰ ہے کہ یہ مقدمات سیاسی بدلہ لینے کے لیے بنائے گئے ہیں۔ اس دوران عمران خان کے خلاف بھی کئی مقدمات درج کیے گئے جن میں کرپشن کے الزامات بھی شامل ہیں۔
بنیادی حقوق پر بحث
سماعت کے دوران جسٹس مسرت ہلالی نے نشاندہی کی کہ نو مئی کے ہنگاموں کے بعد جب ملزمان کو ملٹری کسٹڈی میں لیا گیا تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ ملزمان کے بنیادی حقوق ختم ہوگئے۔
وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ آئین کا آرٹیکل 233 جو ہنگامی حالات کے دوران بنیادی حقوق ختم کرنے کی اجازت دیتا ہے اب اس کا اطلاق نہیں ہوتا کیونکہ کیونکہ سپریم کورٹ کے سابقہ فیصلے سے اس آرٹیکل کا استعمال موجودہ صورتحال درست نہیں ہے۔
جسٹس محمد علی مظہر نے فوجی حکمران جنرل پرویز مشرف کے دور کے مقدمات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ عدالتوں کو ہنگامی حالات میں بھی اختیار حاصل ہے۔
جسٹس امین الدین خان نے وضاحت کی کہ اگرچہ ہنگامی حالات کے دوران حقوق کے نفاذ کو روکا جا سکتا ہے، لوگ اب بھی عدالتوں میں اپنے حقوق کا دفاع کر سکتے ہیں۔
وکیل خواجہ حارث نے اختلاف کرتے ہوئے کہا کہ حقوق کے نفاذ کو معطل کرنا بنیادی حقوق کو مکمل طور پر معطل کرنے کے مترادف ہے۔
سماعت کے دوران بھارتی جاسوس کلبھوشن جادھو کا ذکر
اس بحث کے دوران بھارتی جاسوس کلبھوشن جادھو کے کیس پر بھی بات ہوئی، جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ ’سپریم کورٹ نے مرکزی فیصلے میں آرمی ایکٹ کی شق 2 ڈی کو کالعدم قرار دیا۔ آرمی ایکٹ کی اس شق کو کالعدم قرار دینے سے مجموعی اثر کیا ہوگا؟‘
جس پر خواجہ حارث نے دلیل دی کہ سپریم کورٹ کے فیصلے سے ملک دشمن جاسوس کا کیس ملٹری کورٹس میں نہیں چل سکتا۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے سوال کیا کہ پاکستان قومی سلامتی کے مقدمات کو نمٹانے کے لیے اپنے سویلین عدالتی نظام کو بہتر بنانے پر توجہ کیوں نہیں دے رہا۔ جسٹس مسرت ہلالی نے نشاندہی کی کہ اصل مسئلہ یہ نہیں ہے کہ فوجی عدالتیں موجود ہیں یا نہیں بلکہ یہ ہے کہ ان کے اختیارات کا واضح طور پر تعین کیسے کیا جائے۔
جسٹس نعیم اختر افغان نے استفسار کیا کہ یہ فیصلہ کن بنیادوں پر ہوگا کہ کون سے مقدمات فوجی عدالتوں میں چلائے جائیں اور کون سے انسداد دہشت گردی کی عدالتوں میں جائیں۔ 9 مئی واقعات میں 103 ملزمان کے خلاف ملٹری کورٹس میں کیس چلا اور باقی کیسز انسداد دہشت گردی عدالتوں میں چل رہے ہیں، یہ تفریق کیسے کی گئی؟ ملزمان کو فوج کی تحویل میں دینےکا انسداد دہشتگردی عدالتوں کا تفصیلی فیصلہ کدھر ہے؟
جسٹس مندوخیل نے سوال کیا کہ کسی جرم پر کون اور کیسے طے کرتا ہے کیس کہاں جائے گا؟ جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ مقدمات کہاں چلنے ہیں اس کی تفریق کیسے اور کن اصولوں پر کی جاتی ہے؟
اسی دوران عدالت نے سویلینز کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کے خلاف سماعت دس جنوری تک ملتوی کردی۔
اس کیس پر سپریم کورٹ کا حتمی فیصلہ پاکستان میں فوجی عدالتوں کے ٹرائل کے مستقبل پر بڑا اثر ڈال سکتا ہے۔