جسٹس نعیم اختر افغان نے کہا کہ ’فوجی عدالتوں میں ٹرائل عام سویلین عدالتوں کی طرح ہی ہوتے ہیں۔‘
سپریم کورٹ کی سماعت کے دوران جسٹس جمال خان مندوخیل نے تشویش کا اظہار کیا کہ کیا فوجی افسران سزائے موت جیسی سخت سزا دینے کے اہل ہیں۔
کیس کی سماعت جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں سات رکنی آئینی بنچ کر رہا ہے۔ اس کیس میں اس بات کا فیصلہ ہوگا کہ کیا پاکستان آرمی ایکٹ کے تحت عام شہریوں کا ٹرائل ہونا چاہیے یا نہیں۔ یہ مقدمہ 9 مئی 2023 کے فسادات کے بعد شروع ہوا، جب پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے سپورٹرز نے سابق وزیراعظم عمران خان کی گرفتاری کے بعد فوجی تنصیبات کو نقصان پہنچایا تھا۔
آج کی سماعت میں وزارت دفاع کی جانب سے ایڈووکیٹ خواجہ حارث نے اپنے دلائل جاری رکھے جبکہ ایڈیشنل اٹارنی جنرل (اے اے جی) عامر رحمان وکیل کے طور پر پیش ہوئے۔
جسٹس نعیم اختر افغان نے کہا کہ ’فوجی عدالتوں میں ٹرائل عام سویلین عدالتوں کی طرح ہی ہوتے ہیں۔‘ تاہم جسٹس مندوخیل نے کہا کہ ’قانون کے پیشے مجھے 34 سال ہوچکے ہیں اس کے باوجود میں خود کو تجربہ کار نہیں سمجھتا، ایک فوجی افسر سزائے موت کیسے سنا سکتا ہے جس کے پاس عدالتی کارروائی کی مہارت ہی نہیں ہے؟‘
وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث نے دفاع کرتے ہوئے وضاحت کی کہ آرمی ایکٹ ایک خاص قانون ہے جس میں شواہد اکٹھے کرنے اور ٹرائل کرنے کا اپنا طریقہ کار ہے۔ انہوں نے دلائل کے دوسرے حصے میں مزید تفصیلات فراہم کرنے کا وعدہ کیا۔
جسٹس مسرت ہلالی نے طریقہ کار پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے پوچھا کہ فوجی عدالتوں میں فیصلے کیسے ہوتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ’جہاں تک میں جانتا ہوں، ایک افسر کیس کی سماعت کرتا ہے، لیکن فیصلہ کمانڈنگ افسر کرتا ہے، جو مقدمے کی سماعت کے دوران موجود نہیں ہو سکتا تھا‘۔
جسٹس محمد علی مظہر نے نشاندہی کی کہ بین الاقوامی سطح پر فوجی عدالتوں کی سربراہی عام طور پر ایسے افسران کرتے ہیں جو ٹرائل میں خود موجود ہوں۔
خواجہ حارث نے تصدیق کی کہ پاکستان کی فوجی عدالتوں کے افسران بھی ٹرائل کے دوران موجود ہوتے ہیں۔
جسٹس مسرت ہلالی نے 1999 کے ہائی جیکنگ کیس کا بھی جائزہ لیا جس میں سابق وزیر اعظم نواز شریف اور سابق آرمی چیف جنرل پرویز مشرف سمیت 200 مسافر سوار تھے۔ انہوں نے ماضی کا واقعہ یاد کرتے ہوئے کہا کہ کس طرح پرویز مشرف کے طیارے کو کراچی میں اترنے سے منع کیا گیا، جس کی وجہ سے نواز شریف کے خلاف ہائی جیکنگ کا مقدمہ چلایا گیا اور مارشل لاء کا اعلان ہوا۔
انہوں نے کہا کہ ’اس ایک واقعے کے نتیجے میں مارشل لا لگا، پھر بھی ہائی جیکنگ کا مقدمہ فوجی عدالت میں نہیں چلایا گیا۔‘ خواجہ حارث نے واضح کیا کہ آرمی ایکٹ کے تحت ہائی جیکنگ جرم نہیں ہے، اس لیے مقدمے کی سماعت سویلین عدالت میں ہوئی۔
9 مئی کے مقدمات کے حوالے سے ایڈیشنل اٹارنی جنرل ثناء اللہ زاہد نے عدالت کو آگاہ کیا کہ اس واقعے سے متعلق 35 ایف آئی آر دائر کی گئی ہیں، جن میں 5000 ملزمان شامل ہیں، جن میں سے صرف 105 کو جائے وقوع میں موجودگی کے شواہد کی وجہ سے فوجی ٹرائل کا سامنا ہے۔
جسٹس مسرت ہلالی نے سوال کیا کہ جب ایف آئی آر میں آفیشل سیکرٹ ایکٹ کا حوالہ نہیں دیا گیا تو فوجی عدالتوں میں کیس کیسے چل سکتا ہے۔
جس پر خواجہ حارث نے وضاحت کی کہ تحقیقات کے دوران ایسی شقیں شامل کی جا سکتی ہیں تاہم جسٹس محمد علی مظہر نے اس بات پر زور دیا کہ مناسب قانونی طریقہ کار کے بغیر شقوں میں اضافہ نہیں کیا جاسکتا۔
کیس کی سماعت پیر (13 جنوری) تک ملتوی کردی گئی۔
نوٹ: اس خبر کا مواد مقامی میڈیا ڈان ڈاٹ کام سے لیا گیا ہے