
غزہ کے جنگ زدہ رہائشیوں کے لیے ایک نئی مشکل کھڑی ہو گئی ہے۔ اب انہیں ایسے حالات میں سخت سرد موسم اور طوفان کا سامنا ہے جب ان کے پاس بچاؤ کے لیے کچھ بھی نہیں ہے۔
غزہ میں بائرون نامی طوفان کی وجہ سے جمعرات کو شدید بارش ہوئی ہے اور سردی کی شدت بھی بڑھتی جا رہی ہے۔ فلسطینی اپنے ٹوٹے پھوٹے خیموں اور تباہ حال کیمپس میں اب موسم کے جبر کا مقابلہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
بہت سے لوگوں کے پاس نہ بارش سے بچاؤ کا سامان ہے نہ سرد موسم کی کوئی تیاری۔ اور نہ غزہ میں اب کوئی ایسا انفراسٹرکچر ہے جو بارش میں کام آ سکے۔ بارش ہوتی ہے تو لوگوں کے خیموں کی چھتیں ٹپکتی ہیں اور نکاسی کا نظام نہ ہونے کی وجہ سے پانی کھڑا ہوجاتا ہے۔ جمعرات کو بارش کے بعد کئی جگہوں پر گھٹنوں گھٹنوں پانی کھڑا ہو گیا۔

ٹھنڈ سے دو بچے ہلاک
طوفان اور سرد موسم کی وجہ سے ہلاکتیں بھی ہوئی ہیں۔ گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران غزہ میں بارش سے ہونے والے حادثات میں 12 افراد ہلاک ہوئے جب کہ ٹھنڈ کی وجہ سے دو بچے مارے گئے۔
خان یونس کی ایک خیمہ بستی میں پناہ گزین ایک بے گھر فلسطینی خاتون ام سلمان ابوقیناس نے ایسوسی ایٹڈ پریس سے بات کرتے ہوئے کہا کہ 'ہم ڈوب چکے ہیں۔ میرے پاس پہننے کے لیے کپڑے نہیں ہیں اور نہ سونے کے لیے کوئی گدا خشک بچا ہے۔'

ان کا کہنا تھا کہ بارش کی وجہ سے ان کے پورے خاندان نے رات جاگ کر گزاری کیوں کہ ان کے خیمے میں پانی آ گیا تھا۔
غزہ کی ایک اور رہائشی علیہ بہتیتی نے بتایا کہ ان کا آٹھ سال کا بیٹا پوری رات بارش کے پانی میں بھیگا رہا اور صبح سردی کی وجہ سے اس کا رنگ نیلا پڑ گیا کیوں کہ وہ پانی میں لیٹا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم نہ کھانا خرید سکتے ہیں نہ کپڑے، تولیہ یا بستر جن پر ہم سو سکیں۔
ہر طرف تباہی اور وبائی امراض کا بڑھتا خطرہ
غزہ میں تقریباً دو سال تک جاری رہنے والی جنگ نے بیش تر گھروں کو تباہ کر دیا ہے۔ غزہ کی تقریباً پوری 20 لاکھ آبادی اس وقت بے گھر ہے اور زیادہ تر لوگ خیمہ بستیوں میں مقیم ہیں جو ساحل کے ساتھ ساتھ پھیلی ہوئی ہیں۔ کچھ نے خطرات کے باوجود تباہ حال عمارتوں میں ہی پناہ لے رکھی ہے۔

فلسطینی سول ڈیفینس کا کہنا ہے کہ جب سے طوفان شروع ہوا ہے انہیں 2500 سے زیادہ کالز آ چکی ہیں جس میں لوگ خیمے تباہ ہونے کی شکایات کر رہے ہیں۔ جن علاقوں میں پانی کھڑا ہوا ہے وہاں لوگ اپنی مدد آپ کے تحت پانی نکال رہے ہیں۔
اقوامِ متحدہ کے ادارہ برائے فلسطینی مہاجرین 'انروا' نے کہا ہے کہ سردی، گنجائش سے زیادہ آبادی اور صفائی نہ ہونے کی وجہ سے بیماریوں اور وبائی امراض کا خطرہ بڑھ گیا ہے۔
اسرائیل وافر مقدار میں امدادی سامان داخل نہیں ہونے دے رہا: امدادی تنظیمیں
امدادی تنظیموں کا کہنا ہے کہ اسرائیل غزہ میں وافر مقدار میں امدادی سامان داخل نہیں ہونے دے رہا جس سے تعمیرِ نو کی سرگرمیاں شروع کی جائیں۔ تنظیموں کے مطابق جنگ بندی ہونے کے دو ماہ بعد بھی اب تک اس مقدار میں امدادی سامان نہیں پہنچ رہا جتنی ضرورت ہے۔ رہائش کا ساز و سامان بہت کم داخل ہو رہا ہے۔

اسرائیل کی فوج کا ادارہ 'کوگاٹ' غزہ میں امدادی سامان کے داخلے کا نگران ہے۔ اس کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے 260000 خیمے اور ترپالیں غزہ میں داخل ہونے دی ہیں۔ اس کے علاوہ 1500 ایسے ٹرک بھی غزہ آئے ہیں جن میں کمبل اور گرم کپڑے تھے۔
لیکن غزہ میں امداد پہنچانے والی تنظیموں کے ایک بین الاقوامی اتحاد شیلٹر کلسٹر کا کہنا ہے کہ بہت کم تعداد میں خیمے غزہ پہنچے ہیں۔ اس کا کہنا ہے کہ اقوام متحدہ اور بین الاقوامی این جی اوز کو غزہ میں صرف 15 ہزار 590 خیمے ملے ہیں اور دیگر ملکوں نے تقریباً 48 ہزار خیمے بھجوائے ہیں جن میں سے اکثر سردی سے تحفظ فراہم نہیں کرتے۔






