
اسرائیلی چیف آف اسٹاف ایال زمیر کہتے ہیں کہ ’ہم سرپرائز وار (جنگ) کی تیاری کر رہے ہیں۔ ہمیں ہر محاذ پر چوکنا رہنا ہوگا۔‘ غزہ میں نسل کشی کے بعد یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ وہ اب کس قسم کی نئی جنونیت کی طرف جا سکتے ہیں۔ اگر اسرائیل کو ’ریاست‘ سمجھنے کے بجائے اسے ایک نسلی نظریاتی ’تنظیم‘ کے طور پر دیکھیں اور پھر اندازہ لگائیں کہ انسانیت دشمن، بگڑی ہوئی قیادت کے زیرِ انتظام ایسی حکومت کیا کرسکتی ہے اور یہ دنیا کو کس سمت دھکیل سکتی ہے۔
تو پھر یہ ’اچانک جنگ‘ کس کے خلاف ہوگی؟ شام کے خلاف؟ عراق یا ایران کے خلاف؟ مصر کے سینائی علاقے پر قبضہ؟ یا پھر ترکیہ کے اندر کچھ مخصوص مقامات پر حملے، تاکہ پورے خطے کو جنگ میں دھکیل دیا جائے؟
یہ سب ممکن ہے۔ اسرائیل بڑی جنگ کے لیے امریکا اور یورپ کو مجبور کرنے کی سازشیں تیار کر رہا ہے۔ وہ یہ پہلے بھی کر چکا ہے۔
جیسے 11 ستمبر کو جب عراق پر حملہ ہوا، جیسے افغانستان پر حملہ ہوا، لیکن اس بار وہ شاید ایسا حملہ کرے جو شدید غصے کو جنم دے اور اچانک کئی ملکوں کو جنگ میں گھسیٹ لے۔
شام میں (عرب سوشلسٹ جماعت) بعث حکومت کے خاتمے کی پہلی سالگرہ منائی جا رہی ہے۔ شامی عوام آج یہاں تک ایک بہت بھاری قیمت چکا کر پہنچے ہیں۔ لیکن اسرائیل ہر ممکن طریقے سے اسے ’تقسیم‘ کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اور وہ یہ سب کچھ چھپ کر نہیں بلکہ کھلے عام کررہا ہے۔
وہ دروز کمیونٹی کے ذریعے ملک کے کچھ حصے الگ کر رہا ہے۔ کچھ علاقوں پر براہِ راست قبضہ کرکے انہیں اپنے کنٹرول میں لے رہا ہے۔ پرانے بعث نظام کے باقی ماندہ عناصر کو استعمال کرکے اندرونی استحکام کو بھی روکنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
سب سے بڑھ کر، شامی کرد ملیشیا وائے پی جی (پیپلز پروٹیکشن یونٹس) کے ذریعے وہ ملک کے ایک تہائی حصے پر قبضہ برقرار رکھے ہوئے ہے۔ اسرائیل کے ساتھ براہِ راست ہم آہنگی میں چلنے والی وائے پی جی شام کی علاقائی سالمیت کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہے۔
وائے پی جی 2025 کے آخر تک دی گئی ڈیڈ لائن ماننے سے انکاری ہے، اسرائیلی اشاروں پر وقت ضائع کر رہی ہے اور حقیقت میں ایک نئی جنگ کی تیاری کر رہی ہے۔
تو پھر ترکیہ اسرائیل کی جانب سے شام کو تقسیم کرنے پر کیا کہے گا؟ کیا اسے وائے پی جی کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جائے گا؟ کیا وہ اپنی سرحد کے بالکل ساتھ اسرائیل کو قبول کرے گا؟
سب جانتے ہیں کہ یہ ترکیہ کے لیے یہ تباہ کن فیصلہ ہوگا اور ایسی کسی بات کی ہرگز اجازت نہیں دی جا سکتی۔
اگر اسرائیل وائے پی جے کے ذریعے شام میں نئی جنگ چھیڑتا ہے تو یہ صرف شام کو ہی غیر مستحکم نہیں کرے گی، بلکہ ترکیہ کے ساتھ ایک نئی محاذ آرائی کا آغاز بھی کرے گی۔ ’دہشت گردی سے پاک ترکیہ‘ کی کوششوں کو سبوتاژ کیا جائے گا اور ایک بڑا بحران پھوٹ پڑے گا جو ترکیہ اور شام، دونوں کو لپیٹ میں لے لے گا۔
اصل میں بات ترکیہ–اسرائیل جنگ کی ہے۔ اسرائیل کی پوری حکمتِ عملی شام اور خطے میں ترکیہ کا اثر کمزور کرنے پر مبنی ہے۔ کیونکہ اب ان کے نزدیک سب سے بڑا خطرہ ترکیہ ہے اور وہ خود بھی اس کا کھلے عام اعتراف کرتے ہیں۔
ایک ایسا بیانیہ گھڑا جا رہا ہے جس میں ترکیہ کے اندر وائے پی جے اور اسرائیل سے جڑے حلقے یہ جھوٹ پھیلا رہے ہیں کہ صدر اردوان مزدوم عبدي سے ملاقات کرنے والے ہیں۔
دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ ایسی ملاقات ہونے والی ہے اور احمد الشراع اسے روکنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ یہ دعویٰ کرنے والے ایک ایسی بے بنیاد کہانی آگے بڑھا رہے ہیں کہ ترکیہ شام سے منہ موڑ کر وائے پی جے کے ساتھ شراکت داری کر لے گا۔
ایک ایسا منصوبہ بنایا جا رہا ہے جس کے ذریعے اچانک وائے پی جے کو ’ریاست‘ کا درجہ اور مزدوم عبدي کو ’صدر‘ کا مقام دے دیا جائے۔
یقیناً ترکیہ کے اندر ایک بہت فعال حلقہ ہے جو اس بیانیے کو بیچنے کی کوشش کر رہا ہے۔ لیکن اس خطے کی ہزار سالہ تاریخی روایت کے لیے نہ تو یہ معاملہ ہضم کرنا ممکن ہے اور نہ ہی اس کھیل کو نہ سمجھنا مشکل ہے۔
BIST کا نام اور لوگو "محفوظ ٹریڈ مارک سرٹیفکیٹ" کے تحت محفوظ ہیں اور بغیر اجازت کے استعمال، حوالہ یا تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔ BIST کے نام سے ظاہر کردہ معلومات کے تمام حقوق مکمل طور پر BIST کی ملکیت ہیں اور اسے دوبارہ شائع نہیں کیا جا سکتا۔ مارکیٹ کا ڈیٹا iDealdata Financial Technologies Inc کے ذریعے فراہم کیا جاتا ہے۔ BIST اسٹاک ڈیٹا میں 15 منٹ کی تاخیر ہوتی ہے۔