
اسرائیل نے حماس کی ہتھیار منجمد کرنے کی تجویز پر جواب دیتے ہوئے کہا ہے کہ غزہ امن منصوبے کے تحت حماس کا کوئی مستقبل نہیں ہے، دہشت گرد تنظیم کو غیر مسلح اور غزہ کو عسکریت سے پاک کیا جائے گا۔
اسرائیل کے ایک اعلیٰ عہدے دار نے خبر رساں ادارے اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے جمعرات کو یہ جواب دیا۔ اس سے قبل حماس کے رہنما خالد مشعل نے بدھ کو قطر کے خبر رساں ادارے الجزیرہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ ان کی تنظیم ہتھیاروں کو منجمد کرنے پر راضی ہے۔ انہوں نے حماس کو غیر مسلح کرنے کے مطالبے کو مسترد کیا تھا۔
واضح رہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے 20 نکاتی غزہ امن منصوبے میں یہ نکتہ شامل تھا کہ حماس کو غیر مسلح کیا جائے گا۔
غیر مسلح ہونا ناقابلِ قبول ہے: حماس رہنما
خالد مشعل نے انٹرویو میں کہا کہ مکمل طور پر غیر مسلح ہونے کا تصور مزاحمت (حماس) کے لیے ناقابل قبول ہے۔ جو تجویز پیش کی جا رہی ہے وہ ہتھیاروں کو منجمد یا محفوظ رکھنے کی ہے۔ تاکہ یہ ضمانت دی جا سکے کہ غزہ کی جانب سے اسرائیلی قبضے کے خلاف کوئی عسکری جارحیت نہیں ہوگی۔

امریکہ، مصر قطر اور دیگر ملکوں کی ثالثی سے اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی کا جو معاہدہ طے پایا ہے، وہ کئی طرح کے خدشات کے باوجود اب تک برقرار ہے۔ اس معاہدے کے تین مراحل تھے جن میں سے پہلا مرحلہ تقریباً مکمل ہو چکا ہے۔ اسرائیلی وزیرِ اعظم بن یامین نیتن یاہو نے عندیہ دیا ہے کہ وہ دوسرے مرحلے میں داخل ہونے والے ہیں۔
غزہ امن معاہدے کا دوسرا مرحلہ انتہائی اہم اور کلیدی ہے۔ کیوں کہ اسی میں حماس کے غزہ میں مستقبل کا کردار طے ہونا ہے۔ اس مرحلے میں اسرائیلی افواج کو مزید پیچھے ہٹنا ہوگا اور ایک بین الاقوامی فورس غزہ میں سیکیورٹی کی ذمے داری سنبھالے گی جب کہ حماس کو ہتھیار ڈالنے ہوں گے۔
نیتن یاہو کی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے اسی ماہ ملاقات بھی متوقع ہے جس میں معاہدے کے بارے میں اگلے مراحل پر بات ہوگی۔ تاہم حماس نے کہا ہے کہ وہ ہتھیار ڈالنے پر آمادہ نہیں ہے۔
خالد مشعل کا کہنا تھا کہ فلسطینیوں کو غیر مسلح کرنے کا مطلب ہے کہ انہیں ان کی روح سے محروم کر دیا جائے۔ اس مقصد کو کسی اور طریقے سے حاصل کیا جائے۔
پہلے مرحلے میں دونوں فریقین کو ایک دوسرے کے قیدی اور یرغمالی لوٹانے تھے۔ حماس نے اسرائیل کو 48 زندہ و مردہ یرغمال واپس کرنے تھے جن میں سے صرف ایک کی لاش غزہ میں باقی رہ گئی ہے۔ اسرائیل کی جانب سے بدلے میں 2000 فلسطینی قیدیوں کو رہا کیا گیا ہے اور سینکڑوں فلسطینیوں کی لاشیں بھی واپس کی گئی ہیں۔
'بین الاقوامی فورس اسرائیل کی سرحد کے ساتھ تعینات کی جائے تو قبول ہے'
بین الاقوامی امن فورس کے بارے میں حماس کے رہنما خالد مشعل نے کہا کہ تنظیم اس فورس کی تعیناتی پر راضی ہے لیکن اسے اسرائیل اور غزہ کی سرحد پر تعینات ہونا چاہیے۔ ان کا کہنا تھا کہ حماس یہ قبول نہیں کرے گی کہ یہ فورس فلسطینی علاقوں کے اندر سرگرمیاں کرے۔ اگر ایسا ہوا تو یہ قبضہ ہوگا۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ فورس اسرائیل کے ساتھ سرحد پر تعینات ہونی چاہیے جو غزہ کو اسرائیل سے علیحدہ کرے۔ خالد مشعل کا کہنا تھا کہ ثالث اور عرب و مسلم ممالک ضامن کا کردار ادا کرسکتے ہیں کہ غزہ کے اندر سے کوئی جارحیت نہیں ہوگی۔ اسرائیل کا حوالہ دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ خطرہ غزہ سے نہیں بلکہ صیہونی ریاست سے ہے۔







