میں ترکیہ اور شام کے درمیان ہونے والے مذاکرات پر بہت قریب سے نظر رکھے ہوئے ہوں۔ خاص طور پر شام کے صدر بشارالاسد کے حالیہ بیان کے بعد بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ یہ مذاکرات بے نتیجہ نکلیں گے۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ بہت سی رکاوٹیں مذاکرات کو ناکام بنا سکتی ہیں۔ کیا انقرہ اور دمشق کے درمیان مذاکرات شروع ہونے سے پہلے ہی ختم ہو جائیں گے؟ لیکن میں جو دیکھ رہا ہوں، ایسا نہیں ہوگا۔ آئیے اسے تھوڑا تفصیل سے سمجھتے ہیں۔
انقرہ کا نقطہ نظر واضح ہے۔ صدر رجب طیب اردوان نے شام کی علاقائی سالمیت اور خودمختاری پر زور دیتے ہوئے ایک مثبت پیغام کے ساتھ بات چیت کا آغاز کیا۔ جون میں ہونے والا اعلان حیران کن نہیں تھا بلکہ یہ دو ماہ سے فون اور پیغامات کے ذریعے ہونے والے بات چیت کے بعد سامنے آیا۔
مذاکرات کا سلسلہ اس وقت شروع ہوا جب اپریل میں صدر اردوان نے بغداد کا دورہ کیا تھا۔ جب عراق نے بغداد میں مذاکرات کی میزبانی کی تجویز پیش کی تو ترکیہ کو کوئی اعتراض نہیں تھا۔ اس کے بعد عراق نے ترکیہ اور شام کے درمیان ثالث کے طور پر اہم کردار ادا کیا۔
شام میں روسی صدر ولادیمیر پیوتن کے خصوصی ایلچی لاورینتیف کی موجودگی میں انقرہ کے مثبت پیغام پر بشارالاسد کا پہلا ردعمل بھی مثبت تھا۔ شامی حکومت نے اپنے علاقوں سے ترک فوجیوں کو فوری طور پر نکالنے کی شرائط میں نرمی کی اور اس کے بجائے فوجیوں کے انخلا کا منصوبہ تجویز کیا۔ جس پر صدر اردوان نے کہا کہ وہ بشار الاسد کو دورے کی دعوت دیں گے۔ دونوں ممالک کے درمیان برف پگھلنے کا یہ پہلا قدم تھا۔
چند روز بعد عراقی وزیر خارجہ فوات حسین نے اعلان کیا کہ عراق ترکیہ اور شامی حکام کی میزبانی کرے گا۔
تاہم اس کے بعد ایک مبہم بیان سامنے آیا جب شامی وزارت خارجہ نے فوجی انخلا سے متعلق منصوبہ بنانے کی تجویز واپس لے لی۔ جس کے بعد یہ سوال اٹھنے لگے کہ ’کیا مذاکرات شروع ہونے سے پہلے ہی ختم ہوجائیں گے؟‘۔
نہیں، مذاکرات شروع ہونے سے پہلے ختم نہیں ہوں گے۔ میرے تجزیے کے مطابق دونوں ممالک کے درمیان بات چیت جلد شروع ہوجائے گی۔ مجھے لگتا ہے کہ شام کا مشروط بیان ’اردوان اور بشار الاسد ملاقات‘ سے متعلق ہے۔ میرا نہیں خیال کہ انہوں نے بات چیت کا دروازہ بند کردیا ہے (اگر ایسا کریں گے تو ان پر اسرائیل-امریکا-کردش کا دباوٴ بڑھ جائے گا)
اگر ہم عراقی وزیر خارجہ حسین کے بیان کو دیکھیں تو ایسا لگتا ہے کہ شامی حکومت نے نچلی سطح (چاہے وہ لیڈروں یا وزراء کے ساتھ ہی کیوں نہ ہوں) پر مذاکرات کرنے اور بغداد میں مذاکرات کے روڈ میپ پر چلنے پر رضامندی ظاہر کی ہے۔
اگرچہ ایسے اشارے موجود ہیں کہ انقرہ نے اپنے فوجوں کو شام کے علاقوں سے نکالنے کے لیے کوئی ٹائم لائن یا منصوبہ نہیں دیا اور نہ ہی دے گا لیکن شامی حکومت اب بھی نچلی سطح پر بات چیت کے لیے آمادہ ہے۔
ترکیہ شام کے درمیان مذاکرات کا عمل اب بھی نازک موڑ میں ہے اور کچھ ممالک اس پر اثر انداز ہونے یا سبوتاژ کرنے کی کوشش کر سکتے ہیں۔ امریکا اپنے موٴقف پر واضح ہے وہ تعلقات کو معمول پر لانے کی کوششوں کی حمایت نہیں کرتا ہے۔ دہشت گرد تنظیم کردستان ورکرز پارٹی (پی کے کے) بھی ان مذاکرات سے ناخوش ہے۔ اس کی وضاحت میں آخر میں کروں گا۔
کچھ ایسے بھی ممالک ہیں جو کھل کر موٴقف پیش نہیں کررہے لیکن حل تجویز کررہے ہیں اور اس عمل میں اپنا فائدہ چاہتے ہیں۔ تہران ایسا کیوں کر رہا ہے؟ پہلی وجہ یہ ہے کہ ماہرین کہتے ہیں کہ ترکیہ اور شام کے تعلقات معمول پر آنے سے شام میں ایران کی اہمیت کم ہوجائے گی۔ نوگورنو کاراباخ اور جنوبی قفقاز میں اسٹریٹجک نقصان مشرق وسطیٰ تک پھیلے گا۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ حزب اللہ تک پہنچنے والی لاجسٹک لائن ختم ہو جائے گی، جس سے بحیرہ روم سے رابطہ ختم ہو جائے گا۔ تیسری اور دلچسپ وجہ یہ ہے کہ اگر تہران شام سے اپنی فوج نکالنے کا فیصلہ کرتا ہے تو وہ نہیں جانتا کہ وہاں موجود دسیوں ہزار ملیشیا کے ساتھ کیا کیا جائے اور تہران کے پاس اس کے لیے کوئی واضح پلان نہیں ہے۔
کہا جاتا ہے کہ روس بھی ایسا ہی چاہتا ہے۔ وہ بغداد کی کھلم کھلا مخالفت کرتے ہیں اور یہ کوئی تعجب کی بات نہیں ہے۔ کوئی بھی ملک ایسے اہم اور پیچیدہ مسئلے پر اپنا کنٹرول کھونا نہیں چاہتا۔
انقرہ کے مذاکراتی کوششوں کے نتائج سامنے آنا شروع ہوگئے ہیں۔ آپ نے امریکہ کے منصوبے کے بارے میں پڑھا ہو گا، وہ منصوبہ یہ تھا کہ کردستان ورکرز پارٹی (پی کے کے) کو دمشق سے جوڑا جائے۔ دمشق کو سعودی عرب سے بات کرنے پر مجبور کرنے کے لیے ایران مخالف گروپ بنایا جائے۔
واشنگٹن اور دمشق کے درمیان خفیہ مذاکرات ہوئے۔ بشار الاسد پر دباؤ ڈالا گیا اس کے بعد کردستان ورکرز پارٹی سے رابطہ کرنے سے متعلق بشار الاسد کا بیان سامنے آیا۔ اس دوران کردستان ورکرز پارٹی نے بلدیاتی انتخابات کے ذریعے آزادی کی راہ ہمواہ کرنا شروع کی اور اس تمام پیش رفت پر دمشق کی نظریں تھیں۔
انقرہ کے شام کے ساتھ مذاکرات شروع کرنے سے بشار الاسد کی حکومت کو دہشت گرد گروپ کے خلاف مزید طاقت ملی۔ اس سے بشارالاسد کو دہشت گرد تنظیم پر دباؤ ڈال کر صورتحال کو اپنے فائدے کے لیے استعمال کرنے اور کارروائی کرنے کا موقع مل گیا۔ اس دوران کردستان ورکرز پارٹی نے بیان دیا کہ ’دمشق ہماری توقعات پر پورا نہیں اتر رہا ہے‘۔ شام کے فوجیوں اور کردستان ورکرز پارٹی کے ارکان کے درمیان کشیدگی اور تنازعات کی بھی اطلاعات رپورٹ ہوئیں۔
رپورٹس سے پتہ چلتا ہے کہ کردستان ورکرز پارٹی کے عسکریت پسندوں نے شامی حکومت کے ٹھکانوں پر حملہ کیا۔ (شام میں داعش کے خلاف ترکیہ کی کارروائیوں کے دوران کردستان ورکرز پارٹی نے داعش کے جنگجوؤں کو اپنی سرزمین سے دوسرے علاقے منتقل کیا)۔ دوسرے الفاظ میں اتبدائی طور پر دمشق امریکی دباؤ کی وجہ سے کردستان کے ساتھ معاہدہ کرنے جا رہا تھا لیکن کشیدگی بڑھ گئی۔ یہ انقرہ کی مذاکراتی کوششوں کے ابتدائی نتائج میں سے ایک ہے۔ یہ ایک پیچیدہ صورتحال ہے جس میں بہت سے اسٹیک ہولڈرز شامل ہیں اور نفیساتی اور سماجی جڑیں ہیں۔ اس مسئلے کو حل ہونے میں وقت لگے گا۔ لیکن ڈپلومیسی میں صبر کی ضرورت ہوتی ہے اس لیے ہمیں اس کی پیشرفت پر نظر رکھنی ہوگی۔
BIST کا نام اور لوگو "محفوظ ٹریڈ مارک سرٹیفکیٹ" کے تحت محفوظ ہیں اور بغیر اجازت کے استعمال، حوالہ یا تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔ BIST کے نام سے ظاہر کردہ معلومات کے تمام حقوق مکمل طور پر BIST کی ملکیت ہیں اور اسے دوبارہ شائع نہیں کیا جا سکتا۔ مارکیٹ کا ڈیٹا iDealdata Financial Technologies Inc کے ذریعے فراہم کیا جاتا ہے۔ BIST اسٹاک ڈیٹا میں 15 منٹ کی تاخیر ہوتی ہے۔