پچھلے کالم میں ہم نے بات کی تھی کہ امریکا میں ’نیوکانز‘ ڈیموکریٹک امیدوار کملا ہیرس کو سپورٹ کرسکتے ہیں۔ اب ڈیموکریٹک پارٹی اپنی الیکشن مہم میں مسیحی برادری کے سفید فام ایونجیلیکلز، جو ریپبلکنز کے لیے اہم ووٹرز ہیں، کی حمایت حاصل کرنے کی کوششیں کررہی ہے۔ (ایونجیلیکل مسیحی مرادری سے تعلق رکھنے والے لوگ ہیں جو اکثر سیاسی طور پر سرگرم ہوتے ہیں اور قدامت پسند پالیسیوں کی حمایت کے لئے جانے جاتے ہیں جبکہ نیو کانز امریکا میں ایک سیاسی گروپ ہے جو دنیا بھر میں اور خاص طور پر مڈل ایسٹ میں مضبوط خارجہ پالیسی
پچھلے کالم میں ہم نے بات کی تھی کہ امریکا میں ’نیوکانز‘ ڈیموکریٹک امیدوار کملا ہیرس کو سپورٹ کرسکتے ہیں۔ اب ڈیموکریٹک پارٹی اپنی الیکشن مہم میں مسیحی برادری کے سفید فام ایونجیلیکلز، جو ریپبلکنز کے لیے اہم ووٹرز ہیں، کی حمایت حاصل کرنے کی کوششیں کررہی ہے۔
(ایونجیلیکل مسیحی مرادری سے تعلق رکھنے والے لوگ ہیں جو اکثر سیاسی طور پر سرگرم ہوتے ہیں اور قدامت پسند پالیسیوں کی حمایت کے لئے جانے جاتے ہیں جبکہ نیو کانز امریکا میں ایک سیاسی گروپ ہے جو دنیا بھر میں اور خاص طور پر مڈل ایسٹ میں مضبوط خارجہ پالیسی اور جمہوریت کو فروغ دیتے ہیں)
سال 2016 کے صدارتی الیکشن میں ڈونلڈ ٹرمپ کو ان کے طرزِ زندگی کی وجہ سے ایونجیلیکل شک کی نظر سے دیکھتے تھے۔ 2016 میں ایونجلیکل سیاستدان مائک پینس پرائمری انتخابات میں ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف کھڑے ہوئے۔ پرائمری انتخابات جیتنے کے بعد ٹرمپ نے سفید فام ایونجلیکل ووٹرز کی حمایت حاصل کرنے کے لیے مائک پینس کو اپنا نائب صدارتی امیدوار بنایا۔ یوں 2016 کے انتخابات میں ٹرمپ نے ایونجیلیکلز کے 80 فیصد سے زیادہ ووٹ حاصل کیے۔
ایونجیلیکلز امریکی آبادی کا تقریباً 14 فیصد حصہ ہیں، 2020 کے الیکشن میں ایونجیلیکلز کی ووٹرز کی شرح 20 فیصد تھی۔ انہیں ریپبلکن پارٹی کی ایک تہائی حمایت حاصل ہے۔ سفید فام پروٹیسٹنٹس اور سفید فام کیتھولکس کے ساتھ ایونجیلیکلز امریکہ میں جاری ثقافتی تنازعات میں اہم کردار ادا کررہے ہیں۔ جنہیں اکثر امریکی کی ’کلچر وار‘ یا ’ثقافتی جنگیں‘ کہا جاتا ہے۔ سفید فام پروٹسٹنٹ آبادی کا 14فیصد اور سفید فام کیتھولک آبادی کا 13 فیصد حصہ ہیں۔ یہ تینوں گروپس ریپبلکن پارٹی کے اہم اتحادی ہیں۔
انتخابات جیتنے کے لیے ڈیموکریٹس کو ایونجلیکلز زیادہ سپورٹ چاہیے۔ بارک اوباما نے 2008 میں 26 فیصد اور 2012 میں 21 فیصد سفید فام ایوینجلیکل ووٹ حاصل کر کے صدارتی انتخاب جیتا تھا۔ ہیلری کلنٹن 2016 میں انتخابات ہار گئی تھیں کیونکہ ان کو ایوینجلیکل کی صرف 16 فیصد حمایت ہی حاصل تھی۔ جو بائیڈن ان کی 24 فیصد حمایت حاصل کر کے انتخابات میں کامیاب ہوئے۔ اس وقت 85 فیصد سفید فام ایوینجلیکل ریپبلیکنز کو سپورٹ کر رہے ہیں، جبکہ 14 فیصد ڈیموکریٹس کو سپورٹ کر رہے ہیں۔
نومبر 2024 کے انتخابات دونوں جماعتوں کے لئے انتہائی اہم ہیں۔ ڈیموکریٹس کی توجہ صرف اس بات کو یقینی بنانے پر ہے کہ ٹرمپ ہار جائیں، جس کا مطلب یہ ہو گا کہ دو طرفہ امریکی سیاسی نظام کا تسلسل جاری رہے گا۔ ٹرمپ مخالف ریپبلکنز اور نیوکانز امید کر رہے ہیں کہ کملا ہیرس الیکشن جیت جائیں گی۔ ان کا خیال ہے کہ کملا ہیرس کی جیت سے انہیں فائدہ ہوگا خاص طور پر جب بات امریکی خارجہ پالیسی ہو جو ’نہ ختم ہونے والی جنگ‘ پر مبنی ہے۔
2024 کے انتخابات میں ووٹوں کی تعداد میں معمولی کمی بیشی بھی انتہائی اہم ہوگی۔ لہٰذا ڈیموکریٹک پالیسی ساز سفید فام ایوینجلیکلز کی زیادہ سے زیادہ حمایت حاصل کرنے کے لیے کام کر رہے ہیں۔ اس سلسلے میں ڈیموکریٹس کے ساتھ کام کرنے والے ایوینجلیکل نے کملا ہیرس کی حمایت کے لیے ریلی نکالنا شروع کر دی ہے۔
’ایوینجلیکل فار ہیرس‘ گروپ نے اس نظریے کو پھیلانے کے لیے مہم شروع کر دی ہے کہ ٹرمپ کے مقابلے کملا ہیرس بہتر کرسچن ہیں۔ فرینکلن گراہم اور ٹرمپ کی حمایت کرنے والے دیگر ایوینجلیکلز کہتے ہیں ’ایونجلیکلز فار ہیرس‘ ٹرمپ پر تنقید کرنے کے لیے ان کے والد کے نام کا غلط استعمال کر رہے ہیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ آج ان کے والد زندہ ہوتے تو ٹرمپ کو ہی ووٹ دیتے۔
بلی گراہم کی پوتی جیروشاہ ڈوفورڈ نے ’ایونجلیکلز فار ہیرس‘ کے زیر اہتمام ایک تقریب میں حصہ لیا۔ انہوں نے خدشہ ظاہر کیا کہ ٹرمپ کی مسلسل حمایت نوجوانوں کو عیسائیت سے دور کر رہی ہے۔ ساتھ ہی مائیک پینس (جو ٹرمپ کے دور میں نائب صدر تھے) کھلے عام اعلان کر چکے ہیں کہ وہ ٹرمپ کی حمایت نہیں کریں گے۔ اس کے علاوہ قدامت پسند ایونجیلیکل مصنف اور وکیل ڈیوڈ فرنچ نے ’نیو یارک ٹائمز‘ کے ایک کالم میں لکھا تھا کہ وہ ٹرمپ کی قدامت پسندی سے چھٹکارا پانے کے لیے کملا ہیرس کو ووٹ دیں گے۔
وائٹ ایوینجلیکل کمیونٹی کی نمائندگی رکنے والے سماجی مذہبی لوگ اور ٹرمپ کی حمایت کرنے والے مذہبی لوگوں کے درمیان مسلسل بحث جاری ہے۔ ٹرمپ کی حمایت کرنے والے ایونجلیکل لوگ یہ پروپیگنڈا کر رہے ہیں کہ کملا ہیرس ایک شیطانی سیاست دان ہیں جو عیسائی کا روپ دھار رہی ہیں۔ وہ ہیرس کے ممکنہ حامیوں کو یہ کہہ کر روکنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ ’اگر آپ ہیرس کو ووٹ دیتے ہیں تو آپ ایونجلیکل نہیں ہیں‘۔ اس کے علاوہ ایونجلیکل کا عیسائی-صیہونی دھڑا، جو اسرائیل کی بھرپور حمایت کرتا ہے، ٹرمپ کے ساتھ مضبوطی سے کھڑا ہے۔
سفید فام ایونجلیکل کے ووٹ امریکی انتخابات میں اہم کردار کریں گے۔ جس کی وجہ سے یہ گروپ دونوں جماعتوں کے لیے اہم توجہ کا مرکز ہے۔ الیکشن کی صورتحال کو بدلنا ڈیموکریٹس کے لیے آئندہ 2024 کے انتخابات اور ’ثقافتی جنگ‘ دونوں اسٹریٹیجک لحاظ سے اہم ہے۔ وہیں ریپبلیکنز کے لیے بھی ان کی حمایت حاصل کیے رکھنا شدید ضروری ہے۔