مراد سدپارہ: ’خطرناک چوٹیوں پر دوسروں کو ریسکیو کرنے والا خود مدد کا انتظار کرتے ہوئے چل بسا‘

09:0212/08/2024, پیر
general.g13/08/2024, منگل
ویب ڈیسک
مراد سدپارہ
مراد سدپارہ

’میرے دل میں جو لگی ہے اس لگن سے پوچھیے میں کس لیے برباد ہوا ان پہاڑوں سے پوچھیے‘


یہ بول مراد سدپارہ کے ہیں جو ویسے تو کوہ پیمائی کے لیے مشہور ہیں لیکن ان کے دوست انہیں ’سنگر‘ کہہ کر بلاتے تھے۔


پاکستان کی چوتھی بڑی چوٹی براڈ پیک پر زخمی ہونے والے اسکردو کے کوہ پیما مراد سدپارہ انتقال کرگئے۔ ان کی موت کی تصدیق الپائن کلب کے نائب صدر ایاز شگری نے کی۔


10 اگست کو لینڈ سلائیڈنگ کی وجہ سے مراد سدپارہ 8 ہزار 47 میٹر کی بلند چوٹی براڈ پیک سے اترتے ہوئے زخمی ہوئے۔ 11 اگست کو انہیں براڈ پیک سے نکالنے کے لیے ریسکیو مشن بھیجا گیا تھا لیکن مراد زخموں کے تاب نہ لاتے ہوئے جانبر نہ ہو سکے۔


ریسکیو آپریشن کے دوران دیگر چار کوہ پیماؤں کو بیس کیمپ تک پہنچایا گیا۔


پاکستان کی نامور کوہ پیما نائلہ کیانی نے بھی اس خبر کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ ’مراد سدپارہ اب ہمارے درمیان نہیں رہے۔ براڈ پیک سے نیچے اترتے ہوئے ان کے سر پر پتھر لگ گیا اور وہ زخمی ہوگئے۔‘




انہوں نے ریسکیو آپریشن میں تاخیر کی شکایت کرتے ہوئے کہا کہ ’انتظامیہ کی تاخیر کی وجہ سے پچھلے دو دنوں میں قیمتی وقت ضائع ہوا۔ اگر ہم وقت پر آپریشن کا آغاز ہوجاتا تو شاید مراد سدپارہ کی جان بچ سکتی تھی اور آج ان کی موت کے بجائے کوئی اور خبر ہوتی۔‘


رپورٹس کے مطابق مراد سدپارہ گزشتہ ہفتے پرتگالی خاتون کوہ پیما کے ساتھ براڈ پیک ایڈونچر کے لیے روانہ ہوئے تھے جہاں سے واپسی پر کیمپ 1 پر سر پر پتھر لگنے سے وہ شدید زخمی ہو گئے۔ پرتگالی کوہ پیما کے مطابق انہیں سنگین چوٹیں آئی تھیں۔


ریسکیو ذرائع نے بتایا کہ سدپارہ کی لاش کو جاپانی کیمپ منتقل کر دیا گیا ہے اور آج دوپہر 2 بجے تک بیس کیمپ منتقل کر دیا جائے گا جہاں سے اسے آرمی ہیلی کاپٹر کے ذریعے اسکردو پہنچایا جائے گا۔


مراد سدپارہ کی عمر 35 برس تھی اور ان کے 4 بچے تھے۔ انہوں نے خطرناک پہاڑی چوٹیوں سے ماضی میں کئی کوہ پیماوٴں کی جانب بچائی جس میں کوہ پیما حسن شگری کی لاش بھی شامل ہے جو کے ٹو سے نیچے اترتے ہوئے لاپتا ہوگئے تھے۔


مراد سدپارہ کا شمار پاکستان کے نامور کوہ پیماؤں میں ہوتا ہے اور وہ اس سال کے ٹو صفائی مہم کی قیادت کر رہے تھے۔ وہ پانچ مرتبہ کے ٹو پر مہم کا حصہ بن چکے ہیں۔


انہوں نے گزشتہ سال انتقال کرجانے والے کوہ پیما حسن شگری کی لاش کے ٹو کے بیس کیمپ سے اہل خانہ کے حوالے کی۔ مراد سدپارہ نے گزشتہ سال کے ٹو کے کیمپ 3 سے ایک افغان کوہ پیما کی لاش نیچے لانے میں مدد کی تھی۔


35 سالہ کوہ پیما گرمیوں میں پہاڑ پر چڑھنے اور سردیوں میں ٹریکٹر چلا کر اپنا وقت گزارتے تھے۔


8047 میٹر بلند براڈ پیک قراقرم کے پہاڑی سلسلے میں واقع ہے جو نسبتاً آسان سمجھی جاتی ہیں۔ دنیا میں 8 ہزار میٹر سے بلند 14 پہاڑ ہیں جن میں سے 5 پاکستان میں واقع ہیں۔




’دوستوں کی محفل میں مراد کی سُریلی آواز یاد آئے گی‘


پاکستان کے نوجوان کوہ پیما شہروز کاشف نے ینی شفق سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’مراد اپنی گلوکاری کی وجہ سے مشہور تھا، ان کی قریبی ساتھی انہیں ’سنگر‘ کہہ کر بلاتے تھے، کلبھی دوستوں کی محفل لگتی تو ہم مراد سے گانے کی فرمائش کرتے تھے، وہ گانے کے بول بھی خود لکھتا تھا۔‘


’ان کے گانے کا یہ بول بہت مشہور تھا کہ ’میرے دل میں جو لگی ہے اس لگن سے پوچھیے میں کس لیے برباد ہوا ان پہاڑوں سے پوچھیے‘، وہ یہ گانا گنگناتے ہوئے ڈرم بھی بجایا کرتا تھا۔ دوستوں کی محفل میں مراد کی سریلی آواز بہت یاد آئے گی‘۔


سوشل میڈیا پر مراد سدپارہ کی یہ ویڈیو بھی وائرل ہورہی ہے جہاں انہیں اپنے ساتھیوں کے ساتھ پہاڑ پر چڑھتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے۔ اس دوران وہ گانا بھی گنگنا رہے ہیں۔





#Murad Sadpara
#Mountaineer
#Mountains