خفیہ ایجنسیاں پاکستانیوں کا موبائل ڈیٹا کیسے حاصل کرتی ہیں؟

رمنا سعید
03:3410/07/2024, mercredi
جنرل11/07/2024, jeudi
رپورٹر
پاکستان میں ٹیلی کام کمپنیاں لا فل انٹرسیپٹ مینجیمنٹ سسٹم کے نظام کے تحت خفیہ اداروں اور ایجینسیوں   کو 2 فیصد صارفین کا پرسنل ڈیٹا شئیر کر تی ہیں
پاکستان میں ٹیلی کام کمپنیاں لا فل انٹرسیپٹ مینجیمنٹ سسٹم کے نظام کے تحت خفیہ اداروں اور ایجینسیوں کو 2 فیصد صارفین کا پرسنل ڈیٹا شئیر کر تی ہیں

پاکستان کی وفاقی حکومت نے خفیہ ایجنسی انٹر سروسز انٹیلی جینس (آئی ایس آئی) کو فون کالز یا پیغامات کو انٹرسیپٹ اور ٹریس کرنے کی منظوری دے دی ہے۔


اس سلسلے میں وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی اور ٹیلی کمیونیکیشن کی جانب سے ایک نوٹیفیکشن جاری کیا گیا جس کے مطابق وزارت نے آئی ایس آئی کو ’قومی سلامتی کے مفاد کی خاطر‘ شہریوں کی فون کالز ٹریس کرنے کا اختیار دیا ہے۔


مقامی میڈیا رپورٹس کے مطابق آئی ایس آئی کو یہ اختیار پاکستان ٹیلی کمیونیکشن اتھارٹی ( پی ٹی اے) ایکٹ 196 کے سیکشن 54 کے تحت دیا گیا ہے۔


انسانی حقوق کے کارکنوں نے اس نوٹی فکیشن کو آئین اور بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی قرار دیا ہے۔


پچھلے مہینے جون میں سابق وزیر اعظم عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کی غیر قانونی نگرانی کے مقدمے کی سماعت کے دوران اسلام آباد ہائی کورٹ کو معلوم ہوا کہ پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی نے ٹیلی کام کمپنیوں کو ایک ایسا مخصوص نظام لگانے کرنے کا حکم دیا تھا جو شہریوں کے ڈیٹا کی بڑے پیمانے پر نگرانی کی اجازت دیتا ہے۔


جسسٹس بابر ستار کا کہنا تھا کہ وہ ممالک جہاں جمہوریت بہت کمزور ہے اور جہاں قومی ادارے اور قانون اب تک اپنے پیروں پر نہیں کھڑے ان کے لیے تو یہ زیادہ ضروری ہے کہ ملک کی ایجنسیاں اپنی آئین میں بتائی ہوئی حدود کے اندر رہیں، خاص کر جب لوگوں کو پکڑنے اور ان کی جاسوسی کا معاملہ ہو۔


انہوں نے یہ بھی کہا کہ مسئلہ تب بڑھ جاتا ہے جب ایسے خفیہ اداروں کو بے جا رعایت دی جائے کہ وہ جو چاہے کرتی پھریں، اور آئین کو جب چاہیں پھلانگیں، کیوں کہ پھر لوگ اور آئین دونوں ہی غیر محفوظ ہوجاتے ہیں۔


پاکستان میں ٹیلی کام کمپنیاں لا فُل انٹرسیپٹ مینجمنٹ سسٹم کے نظام کے تحت خفیہ اداروں اور ایجینسیوں کو 2 فیصد صارفین کا پرسنل ڈیٹا شئیر کرتی ہیں اور یہ 2 فیصد صارفین تقریباً 40 لاکھ کی آبادی بنتی ہے۔


لا فُل انٹرسیپٹ مینجمنٹ سسٹم ہے کیا؟


عدالتی دستاویزات کے مطابق لا فُل انٹرسیپٹ مینجمنٹ سسٹم (لِمز) ایجنسیوں کو لوگوں کے نجی پیغامات، ویڈیوز، آڈیو ، کال ریکارڈز اور ویب براؤزنگ کی ہسٹری تک رسائی کی اجازت دیتا ہے۔


اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس بابر ستار نے کہا کہ ’لِمز کو ’خفیہ ایجنسیوں‘ کی طرف سے نگرانی کے مقاصد کے لیے استعمال کیا جا رہا تھا۔‘


جسٹس بابر ستار نے کہا کہ یہ ایجینسیوں کی بڑے پیمانے پر پر مداخلت ہے اور یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ ملک میں قانونی بنیادوں کا فقدان ہے اور اس سسٹم کو عدالتی یا ایگزیکٹو نگرانی کے بغیر چلایا جا رہا ہے اور لوگوں کے خفیہ ڈیٹا تک رسائی کی اجازت دے دی ہے۔

لافل انٹرسیپٹ مینجمنٹ سسٹم کیسے کام کرتا ہے؟


اسلام آباد ہائی کے حکم نامے کے مطابق خفیہ ایجنسی صارف کے ڈیٹا کو ٹریک اور ٹریس کرنے کی درخواست دیتی ہے۔ اس کے بعد وہ درخواست خود بخود لمز سسٹم کے پاس چلی جاتی ہے۔ جس کے بعد ٹیلی کام نیٹ ورک پر موجود صاریفین کا نجی ڈیٹا ، کالز، مسیجز وغیرہ ایجنیسیوں کو بھیج دیا جاتا ہے۔


اس نگرانی کے ذریعے سبسکرائبرز کی طرف سے کی جانے والی کالز کو متعدد بار سنا جاسکتا ہے۔


عدالتی دستاویزات میں انکشاف ہوا کہ اس طرح لوگوں کے پیغامات پڑھے جا سکتے ہیں، ان کی کالز کو سنا جاسکتا ہے اور ریکارڈ بھی کیا جاسکتا ہے۔


صارفین کی ڈیوائسز کے ذریعے ان کے آڈیو اور ویڈیو مواد اور صارفین کے براؤز کیے گئے ویب پیجز کی تفصیلات کا جائزہ لیا جا سکتا ہے اور اسے محفوظ بھی کیا جا سکتا ہے۔

’یہ نوٹی فکیشن پرائیویسی اور انسانی حقوق کے خلاف‘


پی ٹی آئی نے ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ حکام کو فون ٹیپ کرنے کے اختیارات دینا پرائیویسی اور انسانی حقوق خلاف ہے۔


ایکس پر پوسٹ کرتے ہوئے پی ٹی آئی نے کہا کہ ’پرائیویسی اور انسانی حقوق کا کمی ایک بڑی وجہ ہے کہ بہت سی کمپنیاں پاکستان چھوڑ رہی ہیں۔‘



انسانی حقوق کی سابق وزیر شیریں مزاری نے بھی مذمت کی۔


ایکس پر پوسٹ کرتے پوئے شیزی مزاری نے جارج آرویل کے ناول ’1984‘ کا حوالہ دیا، جو معلومات کو کنٹرول کرنے، حقائق تبدیل کرنے اور اختلاف رائے کو دبانے کے لیے حکومتوں کے ذریعے سنسر شپ کے استعمال کے بارے میں ہے۔



#Mobile Tracking
#ISI
#Pakistan
#Privacy
#Phone tapping