ایڈیٹنگ:

’اگر روس جنگ جیت گیا تو یوکرین ایک اور افغانستان بن جائے گا‘

07:4912/09/2024, Perşembe
جی: 18/09/2024, Çarşamba
سیمان سیفی اوئن

روس یوکرین جنگ کو مستقبل میں ہائبرڈ کانفلکٹ یعنی مخلوط تنازع کے طور پر یاد رکھا جائے گا جو ظاہر کرتا ہے کہ جنگ وقت کے ساتھ ساتھ کس طرح تبدیل ہوتی رہی۔ بعض ماہرین اسے فورتھ جنریشن وار کہتے ہیں۔ یہ روایتی جنگوں سے بہت مختلف ہے یعنی ایک ایسی جنگ جہاں کچھ عناصر کھل کر لڑرہے ہوں اور کچھ پس پردہ حصہ لے رہے ہوں۔ اس تنازع پر گہری نظر رکھنے والوں کا خیال ہے کہ روس اور یوکرین جنگ صرف دو ممالک کے درمیان ہی نہیں بلکہ یہ معاملہ امریکہ اور چین کے ساتھ بھی جڑا ہے جہاں وہ دنیا بھر میں اپنا اثر و رسوخ اور طاقت

فہرست کا خانہ

روس یوکرین جنگ کو مستقبل میں ہائبرڈ کانفلکٹ یعنی مخلوط تنازع کے طور پر یاد رکھا جائے گا جو ظاہر کرتا ہے کہ جنگ وقت کے ساتھ ساتھ کس طرح تبدیل ہوتی رہی۔ بعض ماہرین اسے فورتھ جنریشن وار کہتے ہیں۔ یہ روایتی جنگوں سے بہت مختلف ہے یعنی ایک ایسی جنگ جہاں کچھ عناصر کھل کر لڑرہے ہوں اور کچھ پس پردہ حصہ لے رہے ہوں۔ اس تنازع پر گہری نظر رکھنے والوں کا خیال ہے کہ روس اور یوکرین جنگ صرف دو ممالک کے درمیان ہی نہیں بلکہ یہ معاملہ امریکہ اور چین کے ساتھ بھی جڑا ہے جہاں وہ دنیا بھر میں اپنا اثر و رسوخ اور طاقت بڑھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ امریکا کی شمولیت یوکرین کو فراہم کی جانے والی مالی اور فوجی مدد کے ذریعے دیکھی جا سکتی ہے۔ اگرچہ امریکہ براہ راست نہیں لڑ رہا ہے، لیکن اس کا اثر و رسوخ واضح ہے۔ تاہم چین کی شمولیت واضح نہیں ہے۔


حال ہی میں کچھ حیران کن واقعات رونما ہوئے ہیں۔ روس (جس نے یوکرین کے ایک بڑے حصے پر حملہ کرکے اس پر قبضہ کرلیا ہے) ایسا لگتا ہے کہ اس جنگ میں اس کی جیت قریب ہے۔ جب ایسا لگا تھا کہ جنگ ختم ہورہی ہے تو یوکرین آرمی نے روسی علاقے میں داخل ہوکر کرسک علاقے میں جوابی کارروائی شروع کردی۔ جس کے بعد پہلے کے مقابلے اب صورتحال مختلف نظر آرہی ہے۔ جو ملک دفاع کر رہا تھا وہ اب حملہ کر رہا ہے اور جو ملک حملہ کر رہا تھا وہ اب دفاع کر رہا ہے۔ یہ تبدیلی اس بات کی علامت ہے کہ جدید دنیا کتنی پیچیدہ اور غیر متوقع ہے لیکن گراوٴنڈ صورتحال پہلے سے کہیں زیادہ مشکل نظر آرہی ہے۔


مجھے یاد ہے کہ جب پہلی بار یہ جنگ شروع ہوئی تو ایک ٹی وی کمنٹیٹر نے بڑے اعتماد سے کہا تھا کہ ’یہ جنگ ایک ہفتے میں ختم ہو جائے گی‘، یہ سادہ نظریہ اس لیے تھا کہ وہ اس میں شامل گہرے، تاریخی مسائل کو نہیں سمجھتے تھے۔ وہ غالباً 1968 کے پراگ بہار یا 1956 کے ہنگری انقلاب جیسے پرانے واقعات کے بارے میں سوچ رہے تھے اور یہ خیال کر رہے تھے کہ سرد جنگ ابھی بھی ہو رہی ہے۔ انہوں نے ویتنام اور افغانستان جیسے حالیہ تنازعات پر غور نہیں کیا۔ درحقیقت ویتنام جنگ اور اسی طرح کے دیگر تنازعات کی وجہ سے سرد جنگ کا نظریہ پہلے ہی بدل چکا تھا۔ جنگ اب صرف طاقتور کے ہمیشہ جیتنے اور کمزور کے ہمیشہ ہارنے کے بارے میں نہیں تھی۔ ضروری نہیں کہ زیادہ ہتھیار، سازوسامان اور فائر پاور رکھنے والے فوج ہی ہمیشہ جنگ جیت لے۔


عام طور پر کسی بھی ملک کی آرمی صنعتی دور کے معاشروں کے لیے تیار کی جاتی ہیں جو سرکاری دفتر یا فیکٹری کی طرح ہوتی ہے۔ تاہم سرکاری اور آرمی کے ڈھانچے میں بہت کم فرق ہوتا ہے۔ ان کے اسٹرکچر، کمانڈر اینڈ کنٹرول سسٹم بڑے لیکن کسی کام کے نہیں ہوتے۔ جدید دور کی جنگوں میں بہت سارے وسائل اور مضبوط اسٹرکچر والی فوجیں آپس میں لڑیں گی اور فتح کا فیصلہ اس کے زیادہ وسائل اور طاقت کی بنیاد پر کیا جائے گا۔ ظاہر ہے کہ ویلنگٹن، نپولین یا کٹوزوف جیسے باصلاحیت جرنیلوں کے اثر و رسوخ کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا جو جنگی صورتحال کا نقشہ پلٹ سکتے تھے۔ لیکن ان کی قابلیت مضبوط اسٹرکچر والی فوجوں پر ہی مبنی تھی۔ جنرل گیاپ، جنہیں آج کم ہی یاد رکھا جاتا ہے، کٹوزوف کی طرح شہرت یا اثر و رسوخ نہیں رکھتے تھے۔


جنرل گیاپ کم فائر پاور اور وسائل کے باوجود ویتنام کے چیلنجنگ ماحول میں امریکی فوج کے خلاف لڑے۔ اگرچہ انہوں نے ملٹری اکیڈمی سے گریجویشن نہیں کی تھی لیکن وہ ہسٹری پڑھاتے تھے۔ پھر بھی انہوں نے جدید ہتھیار سے لیس امریکی فوج کو کافی نقصان پہنچایا۔ جنرل گیاپ نے ایسی حکمت عملیوں کا استعمال کیا جن میں وہ دشمن کے خلاف براہ راست نہیں لڑتے تھے بلکہ وہ چھپتے، جال بچھاتے اور اچانک حملے شروع کرتے تھے۔ ویتنام جنگ اس کی ایک واضح مثال ہے کہ مخالف جتنا بھی مضبوط ہو، ایک کمزور فریق اسے شکست دے سکتا ہے۔ یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے ایشین مارشل آرٹس، جس میں سکھایا جاتا ہے کہ مضبوط حریف کو کیسے قابو میں رکھا جاتا ہے۔


سوویت حکومت، جس نے ویت کانگ کی حمایت کی تھی، اس تجربے سے سبق حاصل نہیں کرسکی، اس نے 1979 میں افغانستان پر حملہ کر کے غلطی کی۔ امریکی حکومت، جس نے افغان گورلیا کی حمایت کی اور سویت یونین کی شکست دیکھی، نے 2001 میں اسی غلطی کو دہرایا اور 2021 میں بھی اسی طرح ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔


کچھ لوگ یہ کہہ سکتے ہیں کہ ’وہ افغانستان میں ہار گئے لیکن عراق میں کامیاب ہوئے‘۔ یہ سچ ہے لیکن عراق نے اپنے اندرونی مسائل کی وجہ سے مزاحمت نہیں کی اور اگر اس نے مزاحمت کی ہوتی تو عراق باآسانی امریکہ اور برطانیہ کے لیے ایک اور افغانستان میں تبدیل ہوسکتا تھا۔


ایسا لگتا ہے کہ ان تمام تجربات نے روس اور امریکہ دونوں کو سبق سکھایا ہے۔ اب یہ واضح ہو گیا ہے کہ فوج کے پاس چاہے جتنے بھی جدید ہتھیار ہو، وہ مزید حملہ آور اور علاقے پر قبضہ نہیں کر سکتا۔ قبضوں کا دور ختم ہو چکا ہے۔


اب توجہ طیاروں اور میزائلوں کے ذریعے بڑے پیمانے پر نقصان پہنچانے پر مرکوز ہوگئی ہے تاہم ایسا کرنے سے دشمن کا دفاعی سسٹم مضبوط ہوگا۔ براہ راست جنگ لڑنے کے بجائے، یہ طاقتیں اب دوسروں کو آپس میں لڑائی کروانے میں زیادہ دلچسپی رکھتی ہیں (جیسا کہ پراکسی وارز)۔


اس تبدیلی نے دنیا اور فوجی تاریخ میں ایک نیا عنصر متعارف کرایا ہے اور وہ یہ ہے کہ پراکسی جنگوں میں اضافہ ہوا اور ایسی فوجیوں کی شمولیت میں بڑھ گئی جو سیاسی مفادات کی پرواہ کیے بغیر کسی بھی ریاست یا قوم کے لیے لڑتے ہوں۔ یہ نیا طریقہ جنگ لڑنے کے پرانے نپولین انداز سے مختلف ہے۔ نکولو میکیاولی اگر آج زندہ ہوتے تو وہ شاید اس نئے طریقے کو دیکھ کر پریشان ہوتے کیونکہ انہوں نے اپنے زمانے میں ایسے فوجیوں کی شمولیت کی سخت مخالفت کی تھی۔ جس دن پیوٹن نے یوکرین میں جنگ شروع کی، تو انہوں نے روسی عوام کو سنجیدگی اور فکرمندی کے ساتھ کہا کہ یہ جنگ مشکل اور لمبے عرصے تک چل سکتی ہے۔ ہم نے دیکھا کہ روسی فوج کو شروع میں شمالی محاذ پر مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، پھر انہوں نے اپنی حکمت عملی تبدیل کی اور مشرق سے نئی مہم شروع کی۔ بہرحال اگر ہم تصور کریں کہ روس یوکرین کو شکست دینے میں کامیاب ہو گیا اور یوکرین کا کنٹرول سنبھال لیا اور مغرب بھی اس ساری صورتحال سے پیچھے ہٹ جائے تو کیا معاملہ یہیں پر ختم ہوجائے گا؟ تاہم اس میں کوئی شک نہیں کہ یوکرین ایک نیا افغانستان بن جائے گا۔


سرمایہ داری نظام بنیادی مسائل کی وجہ سے اپنے حمایت کرنے والوں سمیت ختم ہو رہا ہے۔ سکڑتا ہوئے محنت کش اور متوسط طبقے کی وجہ سے معیشت، بیوروکریسی اور فوج بھی کمزور ہورہی ہے۔ یہ ہمیں ماضی کے جاگیردارانہ دور کی یاد دلاتا ہے لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہم پرانے مسائل اور طریقوں کی طرف واپس لوٹتے جارہے ہیں جنہیں ہم پیچھے چھوڑ آئے ہیں۔ سرمایہ داری نظام کے اندر اب نیا سسٹم تشکیل پارہا ہے جو ہمیں آگے نہیں بلکہ پیچھے گھیسٹ رہا ہے۔ دوسری جنگ عظیم جیسی تیسری عالمی جنگ کی توقع رکھنا بے معنی ہے۔ اس کے بجائے ہم ایک ایسی افراتفری کی صورت حال دیکھ رہے ہیں جہاں لوگ اپنے ہی ملکوں میں ایک دوسرے کے خلاف لڑ رہے ہیں، جب کہ بیرونی طاقتیں پراکسی گروپس کے ذریعے لڑ رہی ہیں۔


#روس یوکرین جنگ
#یورپ
#امریکا

دن کی اہم ترین خبریں بذریعہ ای میل حاصل کرنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ یہاں سبسکرائب کریں۔

سبسکرائب کر کے، آپ البائیراک میڈیا گروپ کی سائٹس سے الیکٹرانک مواصلات کی اجازت دیتے ہیں اور استعمال کی شرائط اور رازداری کی پالیسی سے اتفاق کرتے ہیں۔