اسرائیل کے ہاتھوں امریکی شہریوں کی ہلاکتیں معاف، یہ دوہرا معیار کب تک؟

11:0913/09/2024, Cuma
جنرل18/09/2024, Çarşamba
عبداللہ مُراد اوغلو

اسرائیل کے زیر قبضہ علاقے ویسٹ بینک میں 26 سالہ ترک نژاد امریکی خاتون عائشہ ازگی ایگی کو گولی مار کر اُس وقت قتل کردیا گیا جب وہ اسرائیلی قبضے کے خلاف احتجاج کررہی تھیں۔ وہ فلسطین کی حمایت یافتہ تنظیم انٹرنیشنل سولیڈیریٹی موومنٹ (آئی ایس ایم) کی ممبر تھیں۔ یہ وہی تنظیم ہے جس میں ایک امریکی ایکٹوسٹ ریچل کوری بھی شامل تھیں جو 2003 میں غزہ میں ایک اسرائیلی بلڈوزر سے ہلاک ہو گئی تھیں۔ وائٹ ہاؤس کی نیشنل سیکیورٹی کونسل کے ترجمان شان سیویٹ نے عائشہ ازگی کی ہلاکت پر گہری تشویش کا اظہار کیا۔ ترجمان نے

خبروں کی فہرست

اسرائیل کے زیر قبضہ علاقے ویسٹ بینک میں 26 سالہ ترک نژاد امریکی خاتون عائشہ ازگی ایگی کو گولی مار کر اُس وقت قتل کردیا گیا جب وہ اسرائیلی قبضے کے خلاف احتجاج کررہی تھیں۔ وہ فلسطین کی حمایت یافتہ تنظیم انٹرنیشنل سولیڈیریٹی موومنٹ (آئی ایس ایم) کی ممبر تھیں۔ یہ وہی تنظیم ہے جس میں ایک امریکی ایکٹوسٹ ریچل کوری بھی شامل تھیں جو 2003 میں غزہ میں ایک اسرائیلی بلڈوزر سے ہلاک ہو گئی تھیں۔

وائٹ ہاؤس کی نیشنل سیکیورٹی کونسل کے ترجمان شان سیویٹ نے عائشہ ازگی کی ہلاکت پر گہری تشویش کا اظہار کیا۔ ترجمان نے کہا کہ انہوں نے مزید معلومات طلب کرنے اور تحقیقات شروع کرنے کے لیے اسرائیلی حکومت سے رابطہ کیا ہے۔ امریکی محکمہ خارجہ کی جانب سے بھی اسی طرح کا بیان سامنے آیا۔

دونوں بیانات میں عائشہ ازگی کی موت کو افسوسناک قرار دیا گیا لیکن اس بات کو نظر انداز کیا گیا کہ ان کی ہلاکت اسرائیلی فوج کی گولیوں سے ہوئی ہے۔ جب صدر جوبائیڈن اور نائب صدر کملا ہیرس نے عائشہ ازگی کی موت سے متعلق گفتگو کی تو انہوں نے بھی اس نقطے کو نظرانداز کیا کہ اس واقعے کا ذمہ دار کون ہے۔ امریکا اور مغربی میڈیا کی جانب سے اس طرح کے بیانات جاری کرنا کوئی نئی بات نہیں ہے جہاں ایسے واقعات میں اسرائیلی فوج کے ملوث ہونے کا براہ راست اعتراف نہیں کیا جاتا۔

عائشہ ازگی پہلی امریکی خاتون نہیں ہیں جو فلسطینی قبضے والے علاقے میں اسرائیلی فوج کی گولیوں کا نشانہ بنیں۔ ریچل کوری، 14 سالہ محمود شالان، صحافی شیریں ابو اکلیح بھی اسی طرح مارے گئے لیکن ان کیسز کی تحقیقات کے لیے اسرائیل نے کبھی امریکی عدالتی حکام کے ساتھ تعاون نہیں کیا جس کی وجہ سے ان کے مقدمات ابھی تک حتمی انجام تک نہیں پہنچے۔ اس کے علاوہ امریکی حکومت نے بھی ان مقدمات کو ختم کرنے کے لیے گرین سگنل دیا جس کی وجہ سے اسرائیل کو جوابدہ نہ ہونے کا موقع مل گیا۔

حال ہی میں اسرائیلی نژاد امریکی قیدی ہیرس گولڈ برج پولن غزہ میں مردہ پائے گئے تو نائب صدر کملا ہیرس نے جوبائیڈن کی طرح اس بات پر زور دیا کہ دیگر ممالک میں امریکی شہریوں کی حفاظت ان کی اولین ترجیح ہوگی۔ امریکی حکام نے بھی اسرائیل کے اِس دعوے کو سپورٹ کیا کہ گولڈ برج پولن کو حماس نے ہلاک کیا۔ سینیٹر ٹام کاٹن نے بائیڈن انتظامیہ کو ’غزہ میں کارروائی جلد ختم‘ کرنے پر زور دیا جبکہ سینیٹر لنڈسے گراہم نے حماس سے انتقام لینے کا مطالبہ کیا۔

دوسری جانب اسرائیل کے ہاتھوں مارے جانے والے امریکیوں کی موت اکثر غیر واضح ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر 2016 میں تِل ابیب میں ایک فلسطینی کے ہاتھوں ایک امریکی ٹیلر فورس کی ہلاکت ہوئی جس کے بعد امریکی کانگریس میں ٹیلر فورس ایکٹ پاس ہوا جس کے بعد فلسطینی اتھارٹی کو بھیجی جانے والی امداد کم کردی گئی۔ اُس وقت کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دستخط کے بعد یہ ایکٹ قانون میں تبدیل ہوگیا اور بے گھر فلسطینیوں کے لیے اقوام متحدہ کی ریلیف اینڈ ورکس ایجنسی کی فنڈنگ میں بھی کمی کردی گئی۔

یاد رہے کہ پچھلے سال سات اکتوبر کے بعد سے لے کر اب تک اسرائیل بمباری کے دوران 17 ہزار سے زیادہ بچوں سمیت 40 ہزار فلسطینیوں کی ہلاکت کے باوجود امریکا نے اسرائیل کو 50 ہزار ٹن ہتھیار فراہم کیے۔ اسرائیلی کارروائی میں امریکیوں کی ہلاکت کے باوجود اسرائیلی حکومت کو جوابدہ نہ ٹھہرانا امریکا کے دوہرے معیار کو ظاہر کرتا ہے۔







#اسرائیل
#غزہ
#اسرائیل حماس جنگ
#مشرقی وسطیٰ
#حماس
#امریکا