ایڈیٹنگ:

بنگلادیش کی عبوری حکومت کے سربراہ محمد یونس، جن پر حسینہ واجد نے ’غریبوں کا خون چوسنے‘ کا الزام لگایا

08:037/08/2024, Çarşamba
جی: 7/08/2024, Çarşamba
ویب ڈیسک
محمد یونس
محمد یونس

بنگلا دیش کے نوبل انعام یافتہ محمد یونس کو ملک کے عبوری حکومت کا سربراہ مقرر کردیا گیا۔ یہ اعلان آج (بدھ) صبح صدر محمد شہاب الدین کے پریس سیکریٹری جوینال عابدین نے کیا۔


یاد رہے کہ بنگلادیش میں ہونے والے پرتشدد مظاہروں کی وجہ سے حسینہ واجد مستعفی ہوگئی تھیں۔ ملک میں مظاہرے بنیادی طور پر سرکاری نوکریوں کے کوٹہ سسٹم کے خلاف جولائی میں شروع ہوئے تھے جو دیکھتے ہی دیکھتے حکومت مخالف تحریک میں بدل گئے تھے۔


محمد یونس مظاہروں کے نتیجے میں وزیراعظم کے عہدے سے مستعفی ہونے والی حسینہ واجد کے سخت ناقدین اور سیاسی مخالفین میں سے ایک ہیں۔ انہوں نے حسینہ کے استعفے کے بعد کہا کہ ’ملک دوسری بار آزاد‘ ہوا ہے۔ ایک موقع پر حسینہ واجد نے محمد یونس کوغریبوں کا ’خون چوسنے والا‘ قرار دیا تھا اور وہ انہیں عوام دشمن بھی سمجھتی ہیں۔


محمد یونس پیشے کے لحاظ سے ماہر معاشیات اور بینکر ہیں۔ 84 سالہ محمد یونس نے 2006 میں امن کا نوبل انعام جیتا تھا۔ انہوں نے گرامین بینک کی بنیاد رکھی اور مائیکرو لونز پروگرام شروع کیا جس سے لاکھوں لوگوں کو غربت سے باہر نکلنے میں مدد ملی۔


نوبل انعام کی ویب سائٹ پر کے مطابق محمد یونس 1940 میں بنگلا دیش کے شہر چٹاگانگ میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے ڈھاکہ یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کی، جس کے بعد وہ فل برائیٹ اسکالر شپ پر معاشیات میں پی ایچ ڈی کرنے امریکا کی وینڈربلٹ یونیورسٹی چلے گئے۔


محمد یونس نے 1983 میں گرامین بینک کی بنیاد رکھی جو غریب لوگوں (خاص طور پرخواتین) کو کاروبار شروع کرنے کے لیے چھوٹے قرضے فراہم کرتا ہے ۔ لوگوں کو غربت سے نکالنے میں بینک نے اہم کردار ادا کیا تھا، جس کی وجہ سے دوسرے ممالک نے متاثر ہوکر اسی طرح کی مائیکرو لونز منصوبے شروع کرنے کی کوشش کی۔


وہ یونس سینٹر کے بانی بھی ہیں، جو ڈھاکہ میں قائم ایک تھنک ٹینک ہے جو نئے سماجی کاروبار کو فروغ دینے میں مدد کرتا ہے۔


انہیں 2008 میں اس وقت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا جب حسینہ واجد کی انتظامیہ نے ان کے خلاف تحقیقات شروع کیں۔ لیکن 2007 میں (جب ملک میں فوج کی حمایت یافتہ حکومت تھی) محمد یونس نے ایک سیاسی جماعت بنانے کا اعلان کیا لیکن بعد میں انہوں نے یہ ارادہ ترک کر دیا تھا اور کہا کہ یہ ان کے بس کی بات نہیں۔


تحقیقات کے دوران شیخ حسینہ نے محمد یونس پر گرامین بینک کے سربراہ کے طور پر غریب دیہی خواتین سے قرض لینے کے لیے طاقت کا استعمال کرنے کا الزام لگایا۔ البتہ محمد یونس نے ان الزامات کی تردید کی۔


ان پر 2013 میں حکومت کی اجازت کے بغیر رقم وصول کرنے کے الزام میں مقدمہ چلایا گیا تھا، جس میں ان کے نوبل انعام اور کتاب کی رائلٹی سے حاصل کردہ رقم بھی شامل ہے۔ بعد ازاں انہیں مزید قانونی مسائل اور الزامات کا سامنا کرنا پڑا جس میں ان کی اپنی کمپنی گرامین ٹیلی کام بھی شامل ہے جو کہ ملک کی سب سے بڑی موبائل فون کمپنی گرامین فون کا حصہ ہے، جو ناروے کی ٹیلی کام کمپنی ٹیلی نار کی ذیلی کمپنی ہے۔


2023 میں گرامین ٹیلی کام کے کچھ سابق ورکرز نے محمد یونس کے خلاف ملازمت کے دوران فوائد سے محروم کرنے کا الزام لگاتے ہوئے مقدمہ دائر کیا۔ تاہم محمد یونس نے الزامات کی بھی تردید کی۔


انہوں جنوری 2024 میں لیبر قوانین کی خلاف ورزی پر 6 ماہ قید کی سزا سنائی گئی تھی اور جون میں بنگلا دیش کی ایک خصوصی عدالت کے جج نے محمد یونس اور دیگر 13 افراد پر 2 ملین ڈالرز کی کرپشن کے مقدمے میں فرد جرم عائد کی تھی۔ تاہم محمد یونس نے اپنے جرم کا اعتراف نہیں کیا اور وہ فی الحال ضمانت پر ملک سے باہر ہیں۔ ان کے ترجمان نے بتایا کہ وہ پیرس سے ڈھاکہ واپس آرہے ہیں جہاں ان کا معمولی طبی معائنہ کیا جائے گا۔


محمد یونس کے حامیوں کا کہنا ہے کہ حسینہ واجد کے ساتھ خراب تعلقات کی وجہ سے محمد یونس پر سیاسی الزامات اور مقدمات چلائے گئے۔


فروری میں امریکی نشریاتی ادارے سی این این سے بات کرتے ہوئے محمد یونس نے کہا کہ ان کے خلاف کرپشن کے الزامات بے بنیاد ہیں اور انہیں سیاسی مقاصد کے لیے ہراساں کیا جانا ہے۔


طلبا مظاہرین محمد یونس کا نام کیوں تجویز کیا تھا؟ جب طلبا نے نے حسینہ واجد کے خلاف احتجاج کیا تو وہ ایسے شخص کو سامنے لانا چاہتے تھے جو حسینہ واجد کے سخت ترین مخالفین میں سے ایک ہوں اور محمد یونس ان کے لیے ایک نمایاں نام تھا۔




#Bangladesh
#quota system
#Protest

دن کی اہم ترین خبریں بذریعہ ای میل حاصل کرنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ یہاں سبسکرائب کریں۔

سبسکرائب کر کے، آپ البائیراک میڈیا گروپ کی سائٹس سے الیکٹرانک مواصلات کی اجازت دیتے ہیں اور استعمال کی شرائط اور رازداری کی پالیسی سے اتفاق کرتے ہیں۔